جمعہ 10 شوال 1445 - 19 اپریل 2024
اردو

کیا باربار عمرہ کرنا جائز ہے ؟ اوردوعمروں کے درمیان کتناوقفہ ہونا چاہیے ؟

49897

تاریخ اشاعت : 16-01-2004

مشاہدات : 16123

سوال

ان شاء اللہ ہم شعبان کے آخراوررمضان المبارک کے شروع میں عمرہ کرینگے ، میرا سوال یہ ہے کہ : کیا ایک سے زيادہ عمرہ کیا جاسکتا ہے ؟
دوسروں معنوں میں اس طرح کہ ایک عمرہ کرکے پھرکچھ دیر انتظار کیا جائے اوردوبارہ احرام باندھ کردوسرہ عمرہ کرلیا جائے ، اوردونوں عمروں کے درمیان کتنا وقفہ ہونا ضروری ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


عمرہ کے تکرار میں کوئي حرج نہيں ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عمرہ کے بعد دوسرا عمرہ کرنے پرابھارا اوران دونوں عمروں کے مابین وقت کی کوئي تحدید نہیں کی ۔

ابن قدامہ اپنی کتاب المغنی ميں کہتے ہيں :

سال میں کئي ایک بارعمرہ کرنے میں کوئي حرج نہيں ، علی ، ابن عمر ، ابن عباس ، انس ، اور‏عائشہ رضي اللہ تعالی عہنم اورعکرمہ ، امام شافعی ، سے یہ روایت کیا گيا ہے ، اس لیے کہ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ایک ماہ میں دوبار عمرہ کیا اوراس لیے بھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( ایک عمرہ دوسرے عمرہ کے مابین گناہوں کا کفارہ ہے ) متفق علیہ ۔

اورشیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی سے مندرجہ ذيل سوال پوچھا گیا :

کیا رمضان المبارک میں اجروثواب کے حصول کے لیے باربار عمرہ کیا جاسکتا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :

اس میں کوئي حرج نہيں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( ایک عمرہ دوسرے عمرہ کے مابین گناہوں کا کفارہ ہے ، اور خالص حج کا اجرجنت کے علاوہ کچھ نہيں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1773 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1349 ) ۔

جب وہ تین یا چاربارعمرہ کرنے تواس میں کوئي حرج نہيں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عھد مبارک میں عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا نے حجۃ الوداع میں بیس یوم سے بھی کم مدت میں دو عمرے کیے تھے ۔ اھـ

دیکھیں : مجموع الفتاوی ابن باز ( 17 / 432 ) ۔

اورلجنۃ الدائمۃ ( مستقل فتوی کمیٹی سعودی عرب ) سے مندرجہ ذيل سوال کیا گيا :

میں مکہ سے سوکلومیٹر کی مسافت پرایک بستی میں رہائش پذیر ہوں ، اورہرسال رمضان المبارک میں مکہ مکرمہ عمرہ کرنے جاتا ہوں وہاں نماز جمعہ اورعصرکی نماز ادا کرکے اپنی بستی میں واپس لوٹتاہوں ، میں اس مسئلہ میں اپنے کچھ بھائیوں سے بحث کی تووہ مجھے کہنے لگے :

رمضان المبارک کے ہرہفتہ میں عمرہ کرنا جائز نہيں ہے ۔

لجنۃ الدائمۃ کا جواب تھا :

اگرتوواقعی ایسا ہی ہے جیسا آپ نے ذکر کیا ہے تویہ جائز ہے ، کیونکہ ایک اوردوسرے عمرہ کے مابین مدت کی تحدید میں کوئي نص نہيں پائي جاتی اھـ ۔دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 11/ 337 ) ۔

اوربعض علماء کرام نے دو عمروں کے مابین مدت کی تحدید اس طرح کی ہے کہ جب مونڈنے کے لیے بال آجائيں تودوسرا عمرہ ہوسکتا ہے ، لھذا یہ مدت ایک ہفتہ یا دس یوم ہوسکتی ہے ۔

شیخ ابن ‏عثيمین رحمہ اللہ تعالی الشرح الممتع میں کہتے ہيں :

امام احمد کا قول ہے : اس وقت تک عمرہ نہ کرے جب تک اس کا سر سیاہ نہ ہوجائے ، یعنی جب بالوں سےسیاہ ہوجائے ۔

تواس بنا پرآج کل عام لوگ بار بار عمرہ کرتے ہيں اورخاص کررمضان المبارک میں تویومیہ عمرہ کرتے ہیں اوراگرچہ ان میں سےبعض ایک عمرہ دن میں اورایک رات میں نہیں کرتے یہ سلف کے مسلک کے خلاف ہے ۔اھـ دیکھیں الشرح الممتع ( 7 / 242 ) ۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب المغنی میں کہتے ہيں :

اورعلی رضي اللہ تعالی عنہ کا قول ہے کہ : ہرماہ میں ایک بار ، اورانس رضي اللہ تعالی عنہ کا جب سربالوں سے سیاہ ہوجاتا تووہ عمرہ کرنے چلے جاتے ، یہ دونوں امام شافعی نے اپنی مسند میں روایت کی ہيں ۔

اورعکرمہ رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے : جب استرے سے بال مونڈنا ممکن ہوں توعمرہ کرلے ۔

اورعطاء رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں : اگرچاہے وہ ایک ماہ میں دوبار عمرے کرسکتا ہے ۔

اورامام احمد رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں : جب عمرہ کرے توسرمنڈانا یا بال چھوٹے کرانا ضروری ہیں ۔اوردس یوم میں سرمنڈانا ممکن ہے ۔ اھـ

اورشیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی مجموع الفتاوی میں کہتےہیں :

امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے بیان کیا ہے کہ عمرہ کثرت سے کرنا مستحب نہيں ہے نہ تومکہ سے اورنہ ہی کہیں اور سے ، بلکہ دوعمروں کے مابین کچھ مدت ہونی چاہیے اگرچہ اتنے دن جس میں بال اگ آئيں جومنڈانے ممکن ہوں ۔ اھـ کچھ کمی وبیشی کے ساتھ

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب