الحمد للہ.
روزے دار كے ليے تيراكى كے حكم كى تفصيل درج ذيل ہے:
اول:
اگر تيراكى كرنے والے كا غالب گمان يہ ہو كہ ناك وغيرہ سے پانى اس كے معدے ميں نہيں جائيگا اور وہ تيراكى كا اتنا ماہر ہو كہ روزہ كى حفاظت كر سكے تو اس كے ليے تيراكى كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اور اس كے ليے تيراكى كا حكم روزے دار كے ليے غسل كے حكم ميں آئيگا، اور علماء كرام نے اسے جائز كہا ہے چاہے ٹھنڈك حاصل كرنے كے ليے ہى ہو.
امام بخارى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
روزے دار كے ليے غسل كرنے كے متعلق باب، ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے روزے كى حالت ميں كپڑا بھگو كر اپنے اوپر ڈال ليا.
امام شعبى رحمہ اللہ روزے كى حالت ميں حمام ميں داخل ہوئے... اور حسن رحمہ اللہ كہتے ہيں: روزے دار كے ليے كلى كرنا اور ٹھنڈك حاصل كرنے ميں كوئى حرج نہيں... اور انس كہتے ہيں: ميرا ايك باتھ ٹب ہے روزہ كى حالت ميں نہاتا ہوں.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
ابزن پتھر كا بنا ہوا حوض سا ہے، لگتا ہے كہ وہ پانى سے بھرا ہوتا اور انس رضى اللہ تعالى عنہ گرمى محسوس كرتے تو اس ميں داخل ہو كر ٹھنڈك حاصل كرتے " انتہى.
ديكھيں: فتح البارى ( 4 / 197 ).
يعنى ابزن اس وقت كے باتھ ٹب كے مشابہ ہوا.
ابو بكر الاثرم نے اپنى سند كے ساتھ بيان كيا ہے كہ:
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما اور ان كے دوست و احباب رمضان المبارك ميں روزے كى حالت ميں حمام جاتے "
ديكھيں: المغنى ( 3 / 18 ).
مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ذيل فتوى ہے:
" رمضان المبارك ميں دن كے وقت تيراكى كرنى جائز ہے، ليكن تيراكى كرنے والے كو چاہيے كہ وہ پيٹ ميں پانى داخل نہ ہونے دے " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 10 / 281 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" روزے دار كے ليے تيراكى كرنے ميں كوئى حرج نہيں وہ جس طرح چاہے تيراكى اور غوطہ خورى كر سكتا ہے، ليكن اسے حسب استطاعت يہ خيال كرنا ہوگا كہ پانى اس كے پيٹ داخل نہ ہو، اور يہ تيراكى روزے دار كے ليے روزہ ميں ممد و معاون ثابت ہو گى، اور اسے چست كرےگى، اور جو چيز اللہ تعالى كى اطاعت كے ليے چست كرتى ہو اس ميں كوئى ممانعت نہيں، كيونكہ يہ اس ميں داخل ہوتى ہے جو بندوں پر عبادت ميں تخفيف اور اسے ان پر آسان كرتى ہے، اور پھر اللہ سبحانہ وتعالى نے روزوں كى آيت كے ضمن ميں فرمايا ہے:
اللہ تعالى تمہارے ساتھ آسانى كرنا چاہتا ہے، اور تمہارے ليے مشكل نہيں كرنا چاہتا، اور تا كہ تم گنتى پورى كرو، اور اللہ تعالى كى بڑائى اس طرح بيان كرو جس طرح اس نے تمہيں ہدايت دى ہے، اور تا كہ تم شكر ادا كرو .
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" يقينا يہ دين آسان ہے، اور جو كوئى بھى دين كےساتھ مقابلہ كرےگا دين اس پر غالب آ جائيگا "
واللہ اعلم. انتہى.
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:
" روزے دار كے ليے پانى ميں غوطہ لگانا يا تيراكى كرنے ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ يہ روزہ توڑنے والى اشياء ميں داخل نہيں، اصل ميں اس كى حلت ہے جب تك كہ اس كى كراہت يا حرمت كى كوئى دليل نہ مل جائے، ليكن اس كى حرمت يا كراہت كى كوئى دليل نہيں ملتى.
بلكہ بعض اہل علم نے اس خوف سے اسے مكروہ كہا ہے كہ كہيں غير شعورى طور پر اس كے حلق ميں پانى نہ چلا جائے " انتہى.
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 19 / 284 - 285 ).
دوم:
اگر اس كا غالب گمان ہو كہ تيراكى كرنے سے اس كے حلق ميں پانى داخل ہو جائيگا تو اس كے ليے ايسا كرنا جائز نہيں، بلكہ رمضان المبارك ميں دن كے وقت اس كے ليے تيراكى كرنى حرام ہو گى، اس كى دليل يہ ہے كہ:
لقيط بن صبرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم مجھے وضوء كے متعلق بتائيں ؟ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" وضوء اچھى طرح كرو، اور اپنى انگليوں كے مابين خلال كيا كرو، اور ناك ميں پانى چڑھانے ميں مبالغہ سے كام ليا كرو، ليكن اگر روزہ كى حالت ميں ہو تو پھر نہيں "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 142 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 788 ) امام ترمذى نے اسے حسن صحيح قرار ديا ہے، اور حافظ ابن حجر رحمہ اور علامہ البانى رحمہما اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اگر روزے دار كو اپنے مسام ميں پانى داخل ہونے كا خدشہ نہ ہو تو وہ پانى ميں غوطہ لگا سكتا ہے.
اور حسن، شعبى رحمہ اللہ نے مسام ميں پانى داخل ہونے كے خوف سے پانى ميں غوطہ لگانا مكروہ قرار ديا ہے.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 3 / 18 ).
اور شافعى فقھاء ميں سے اذرعى كہتے ہيں:
" اگر اسے اپنى عادت معلوم ہو كہ پانى ميں غوطہ لگانے سے پانى اس كے پيٹ ميں داخل ہو جاتا ہے، اور وہ اس سے بچ نہيں سكتا تو اس كے ليے پانى ميں غوطہ لگانا حرام ہے " انتہى.
ديكھيں: حاشيۃ البجيرمى ( 2 / 14 ).
اب سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ:
اگر ناك ميں مبالغہ كے ساتھ پانى چڑھايا جائےـ رمضان ميں دن كے وقت تيراكى كرنا اور غوطہ زنى كرنا بھى اسى طرح ہے ـ اور بغير ارادہ اور قصد پانى پيٹ ميں داخل ہو جائے چاہے اس كے گمان پر غالب ہو كہ پانى داخل ہو گا يا نہيں تو كيا اس پر روزہ ٹوٹنے كا حكم لگايا جائيگا ؟
اس ميں اہل علم كا اختلاف ہے:
پہلا قول:
جمہور اہل علم احناف مالكي اور شافعى حضرات اس كا روزہ باطل قرار ديتے ہيں.
دوسرا قول:
اس كا روزہ باطل نہيں ہوا، بعض تابعين كا قول يہى ہے، اور حنابلہ كے ہاں ايك وجہ ہے، اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے بھى اسے ہى اختيار كيا ہے.
الشرح الممتع ( 6 / 407) اور المغنى ابن قدامہ ( 3 / 18 ) اور المجموع للنووى ( 6 / 338 ) بھى ديكھيں.
اس كے علاوہ تيراكى كرتے وقت ستر ننگا نہيں كرنا چاہيے، اس ليے كسى ايسى جگہ تيراكى نہ كرے جہاں ستر ننگا ہوتا ہو، اور نہ ہى كسى دوسرے كے ستر كى طرف ديكھنے ميں تساہل سے كام ليا جائے.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 38907 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .