الحمد للہ.
اگر تارك نماز نماز كا انكارى ہے تو علماء كرام كے اتفاق كے مطابق وہ كافر ہے، اور اگر وہ نماز كا اقرار كرتا ہے ليكن سستى و كاہلى كى بنا پر نماز ترك كرتا ہے تو بھى صحيح قول كے مطابق وہ كافر ہے، اس كے دلائل مشہور و معروف ہيں ان كا ذكر سوال نمبر ( 2182 ) كے جواب ميں گزر چكا ہے.
اس قول كى بنا پر تارك نماز كا نہ تو كوئى روزہ قبول ہوتا ہے اور نہ ہى حج اور زكاۃ، اور مسلمان عورت كے ليے جائز نہيں كہ ايسے شخص كے ليے اپنے آپ كو سپرد كرے حتى كہ وہ توبہ كر كے نماز كى ادائيگى شروع نہ كر دے.
اور بيوى كو چاہيے كہ وہ اپنى جانب سے فطرانہ ادا كرے اور اگر اولاد كا بھى ادا كرے تو يہ بہتر ہوگا.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" فطرانہ كى ادائيگى فرض ہے، اور يہ بالكل دوسرے واجبات و فرائض كى طرح ہے، ہر انسان كو بنفسہ خطاب كيا گيا ہے، چنانچہ آپ مخاطب ہيں كہ آپ اپنى جانب سے اپنا فطرانہ ادا كريں، چاہے آپ كا باپ يا بھائى ہے، اور اسى طرح بيوى بھى مخاطب ہے كہ وہ اپنا فطرانہ خود ادا كرے چاہے اس كا خاوند بھى ہو " انتہى
ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 18 / 261 ).
اس بنا پر آپ اپنا فطرانہ ادا كريں، رہا اولاد كا مسئلہ تو اگر وہ چھوٹے ہيں آپ ان كى جانب سے فطرانہ ادا كر ديں، اور باپ كے علم كے بغير ادائيگى ميں كوئى حرج نہيں.
اور اگر وہ بڑے اور بالغ ہيں تو اگر ان كے پاس مال ہے تو وہ اپنا فطرانہ خود ادا كريں گے.
واللہ اعلم .