اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

تہواروں کے لئے کارڈ بنا کر بیچتا ہے، کیا یہ جائز ہے؟

سوال

مجھے مختلف تہواروں کے کارڈ بنانے کا مشغلہ پسند ہے اور میں اس سے اضافی آمدنی بھی حاصل کرتا ہوں، میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا یہ کام بدعت میں شمار ہو گا؟ مجھے یہ بتلایا گیا تھا کہ اصولی طور پر ہر چیز حلال ہے، تا آنکہ کوئی دلیل اسے حرام قرار دے، مجھے اپنے اس کام کا حکم جاننے کی اشد ضرورت ہے کہ میرا کام صحیح ہے یا غلط؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ہاں یہ بات ٹھیک ہے کہ معاملات بنیادی طور پر مباح اور حلال ہوتے ہیں، چنانچہ معاملات میں سے کسی بھی چیز کو حرام قرار دینے کے لئے دلیل کا ہونا لازمی ہے۔

آپ جن تہواروں کے لئے کارڈ بناتے ہیں ان کے اعتبار سے آپ کے کام کا حکم الگ الگ ہو گا، اگر یہ کارڈ کافروں کے مذہبی تہوار ہیں جیسے کہ کرسمس وغیرہ ، یا پھر بدعتی تہوار ہیں جیسے کہ عید میلاد النبی، جشن اسرا و معراج، یا ایسے تہوار ہیں جن میں کافروں کی مشابہت ہے، جیسے کہ قومی تہوار اور سالگرہ وغیرہ تو پھر ان تہواروں کے کارڈ بنانا اور انہیں فروخت کرنا جائز نہیں، بلکہ کسی کا آپ سے یہ کارڈ خریدنا بھی جائز نہیں ہے؛ کیونکہ ان کی خرید و فروخت سے شریعت سے تصادم رکھنے والوں تہواروں کا اقرار لازم آئے گا، نیز ان سے گناہ اور زیادتی کے کاموں میں تعاون بھی ہو گا۔

لیکن اگر جن تہواروں کے کارڈ آپ بنا رہے ہیں وہ شرعی ہیں، یعنی عید الفطر اور عید الاضحی - ان کے علاوہ کوئی بھی تہوار شرعی نہیں ہے- تو آپ ان تہواروں کے کارڈ بنا کر فروخت کر سکتے ہیں، لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ شرعی طور پر جائز تحریر اور عبارت ان پر لکھیں، مثلاً: آپ ان پر یہ لکھ سکتے ہیں کہ: اللہ آپ کی عبادت قبول فرمائے، یا ایسی ہی کوئی اچھی عبارت لکھ سکتے ہیں۔

پہلے سوال نمبر: (947) کے جواب میں گزر چکا ہے کہ: کفار کو ان کے تہواروں پر مبارکباد دینا حرام ہے

اور سوال نمبر: (50074) کے جواب میں دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کا ایک صدی مکمل ہونے کی تقریبات میں شرکت کے حوالے سے مفصل بیان گزر چکا ہے، اس میں یہ بتلایا گیا ہے کہ: "کفار کے تہواروں میں کفار کا تعاون کرنا جائز نہیں ہے، چنانچہ ان تہواروں کے ساتھ مختص لباس، یادگاری چیزیں اور کارڈ شائع کرنا اس ناجائز تعاون میں شامل ہے۔"

نیز سوال نمبر: ( 49014 ) ، ( 49021 ) اور ( 36442 ) کے جواب میں شرعی تہواروں اور عیدوں کی مبارکباد دینے کا جواز بیان کیا گیا ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب