الحمد للہ.
سوال ميں ايك بار والد كي بيوي اور دوسري بار ماں كےلفظ بولےگئے ہيں، اس تعبير كےاعتبار سے حكم بھي مختلف ہے جسے مد نظر ركھتے ہوئے دونوں احتمال كےاعتبار سے جواب ديا جاتا ہے :
اول :
فوت شدہ بيٹے كےتركہ كي تقسيم :
اس كي دونوں بيويوں كو آٹھواں حصہ ملے جووہ دونوں آپس ميں برابر تقسيم كرينگي .
اس كےوالد كوچھٹا حصہ ملےگا .
اگرتووہ عورت ( سوال ميں احتمال كي بنا پر ) ماں ہے تو اسے چھٹا حصہ ملےگا , اوراگراس كےباپ كي بيوي ہے اس كي ماں نہيں تواسے كچھ نہيں ملےگا .
اورباقي سارا مال اس كےچاروں بيٹوں كوملےگا جووہ آپس ميں برابر برابر تقسيم كرينگے .
دوم :
والد كي بيوي يا ماں كےتركہ كي تقسيم :
اگروالد كي بيوي ہے اوراس كي كوئي اولاد نہيں - موجودہ خاوند سے يا اگراس نےپہلےبھي شادي كي ہے تواس ميں سے بھي - تواس صورت ميں اس كےخاوند كو نصف ملےگا ، اور سائل نےہميں اس كےباقي ورثاء كا نہيں بتايا تاكہ باقي تركہ بھي تقسيم كيا جاسكے .
اوراگر اس كي اولاد ہے - موجودہ خاوند يا اس كے علاوہ كسي اور سے - تواس كےخاوند كوچوتھا حصہ ملےگا ، اور سائل نے باقي ورثاء كے بارہ ہميں نہيں بتايا .
اور اگر وہ ماں ہے تواس كےخاوند كوچوتھا حصہ اوراس كي موت كےوقت جوزندہ اولاد تھي انہيں باقي تركہ ملےگا ايك مرد كودوعورتوں كے برابر ( يعني: لڑكي سےڈبل )
سوم :
والد كےتركہ كي تقسيم :
اس كي بيوي - اگر اس كي بيوي ہوتو - كو آٹھواں حصہ ملےگا .
اور باقي سارا مال اس كي موت كےوقت زندہ اولاد كےمابين تقسيم ہو گا دولڑكيوں كےبرابر ايك لڑكے كوديا جائےگا .
اوراگر اس كي بيوي نہ ہو توسارا تركہ اولاد كوملےگا ، لڑكے كودو لڑكيوں كےبرابر كےحساب سے .
اور رہا مسئلہ فوت شدہ بيٹے كي اولاد كا اس كےوالد كي زندگي ميں تو وہ اپنے دادے يادادي كي وراثت كےحقدار نہيں ، اور يہ كہ بيٹا - زندہ ہوتا تو - وارث بنتا اس كا يہ معني نہيں كہ جب وہ فوت ہوجائےتو اس كا حصہ اس كي اولاد ميں منتقل ہوجائےگا .
كيونكہ اس صورت ميں علماء كرام كےاجماع كے مطابق يہ بچے چچاؤں كے موجود ہونے كي بنا پروارث نہيں ہونگے .
واللہ اعلم .