الحمد للہ.
قنوتِ وتر میں امام اور مقتدی دونوں کیلئے دعا شریعت میں ثابت ہے، اس بارے میں امام نسائی (1745) ، ترمذی (464) ، ابو داود (1425) ، اور ابن ماجہ (1178) نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے ، وہ کہتے ہیں: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر اور قنوت میں دعا کیلئے الفاظ سکھائے تھےوہ یہ ہیں:
"اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ إِنَّكَ تَقْضِي وَلا يُقْضَى عَلَيْكَ وَإِنَّهُ لا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ" ترجمہ: یااللہ! مجھے ان لوگوں کے ساتھ ہدایت دے جنہیں تو نے ہدایت بخشی ، مجھے ان لوگوں کے ساتھ عافیت عطا فرما جن کو تو نے عافیت عطا کی، مجھے تو اپنے دوستوں میں سے ایک دوست بنا لے، توں نے جو کچھ مجھے دیا ہے اس میں برکت دے ، مجھے اس شر سے محفوظ رکھ جس کا تو نے فیصلہ کر لیا ہے؛ کیونکہ تو ہی فیصلہ کرنے والا ہے، تیرے خلاف فیصلے نہیں کئے جاسکتے ، جس کے ساتھ تو دوستی کر لے وہ کبھی ذلیل نہیں ہوسکتا اور تو ں بڑا بابرکت اور عظیم تر ہے۔
اسے البانی نے صحیح سنن نسائی میں صحیح قرار دیا ہے۔
مزید کیلئے سوال نمبر: (14093) کا مطالعہ کریں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عملا قنوت وتر ثابت نہیں ہے، جبکہ عمر رضی اللہ عنہ سے عملاً ثابت ہے، جیسے کہ بیہقی نے اسے روایت کیا ہے، اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔
چنانچہ اسی بنا پر کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ دعائے قنوت ہمیشہ نہیں مانگنی چاہئے، درمیان میں کبھی کبھار چھوڑ بھی دینی چاہئے۔
مزید تفصیل کیلئے دیکھیں : "الشرح الممتع" از شيخ ابن عثيمين رحمه الله (4/19)
جبکہ کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ قنوت صرف نصف رمضان کے بعد ہی کرنی چاہئے، یہ موقف امام شافعی، اور امام مالک سے ایک روایت اسی کے مطابق ملتی ہے۔
چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"آدھا رمضان گزرنے کے بعد ہی قنوت کی جائے گی، یہی عمل ابن عمر ، اور معاذ القاری کا تھا"انتہی
"مختصر المزنی، مطبوع مع الأم" (8/114)
اور الباجی "المنتقى" (1/210) میں کہتے ہیں کہ:
"امام مالک سے اس بارے میں دو روایات ہیں: پہلی یہ ہے کہ: انہوں نے وتروں میں قنوت کا یکسر انکا ر کیا ہے، اس بات کو ان سے ابن القاسم اور علی نے نقل کیا ہے۔
دوسری یہ ہے کہ: نصف رمضان کے بعد مستحب ہے، یہ بات اُن سے ابن حبیب نے نقل کی ہے، اور اسی کے امام شافعی بھی قائل ہیں"
جبکہ ابو حنیفہ اور امام احمد رحمہما اللہ اس بات کے قائل ہیں کہ پورے رمضان میں قنوت کی جاسکتی ہے، بلکہ پورا سال وتروں میں قنوت کی جاسکتی ہے۔
چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"وتروں کی ایک رکعت میں قنوت پورا سال کرنا سنت ہے، ہمارے [حنبلی] احباب کے ہاں یہی موقف صراحت سے لکھا ہوا ہے، یہ قول ابن مسعود، ابراہیم، اسحاق، اصحاب الرائے ، اور حسن سے بھی مروی ہے۔
امام احمد سے ایک دوسری روایت ہے کہ صرف نصف رمضان کے بعد ہی قنوت کی جائے، یہ موقف علی، ابی بن کعب سے منقول ہے، اسی کے ابن سیرین، سعید بن ابی الحسن، زہری، یحیی بن وثاب، مالک، اور شافعی قائل ہیں، اسی کو ابو بکر اثرم نے اختیار کیا ہے؛ اسکی دلیل میں حسن بصری نے بیان کیا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے تمام لوگوں کو ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کی امامت میں اکٹھا کردیا، تو انہوں نے بیس راتوں میں قیام کروایا، اور صرف دوسرے نصف میں ہی قنوت کی ۔ اسے ابو داود نے روایت کیا ہے، اور اس طرح اس موقف پر اجماع کہنا ممکن ہے۔
قتادہ کہتے ہیں:
[مذکورہ بالا ابی بن کعب کی ] روایت کی وجہ سےرمضان کے پہلے نصف کو چھوڑ کر پورے سال میں قنوت کی جاسکتی ہے، ابن عمر سے منقول ہے کہ وہ رمضان کے صرف آخری نصف میں ہی قنوت کیا کرتے تھے۔
ان سے یہ بھی منقول ہے کہ [عام]نماز وں میں کسی صورت میں بھی قنوت نہیں کی جاسکتی۔
پہلی روایت ہی اکثر [حنبلی]احباب نے اختیار کی ہے، جبکہ امام احمد سے مروذی کی روایت کے مطابق یہ بھی منقول ہے کہ:
"میں اس بات کا قائل تھا کہ قنوت نصف رمضان کے بعد ہی ہے، پھر میں بھی قنوت کرنے لگا، کیونکہ یہ دعا اور اچھا کام ہے، اسکی وجہ ابی بن کعب کی روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر پڑھتے اور رکوع سے قبل قنوت کرتے تھے، اسی طرح علی رضی اللہ عنہ کی روایت کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وتر کے آخر میں کہا کرتے تھے: (اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ، وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقوبَتِكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ، لاَ أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ، أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ)ترجمہ"یا اللہ! میں تیری رضا کے صدقے تیری ناراضگی سے پناہ چاہتا ہوں، تیری معافی کے بدلے تیری سزا سے پناہ چاہتا ہوں، میں تجھ سے تیری ہی پناہ چاہتا ہوں، میں تیری ثناخوانی ایسے نہیں کرسکتا، جیسے توں نے خود اپنی تعریف بیان کی ہے"مذکورہ دونوں احادیث میں ہے (کان) کا لفظ استعمال ہوا ہے جو کہ دوام اور ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے، اسی طرح ابی بن کعب نے قنوت کی یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قنوت کرتے ہوئے دیکھا تھا، [اگرچہ ]اس بارے میں صحابہ کرام کی مختلف آراء سے بھی انکا ر نہیں کیا جاسکتا،[لیکن پھر بھی پورے سال کی طرح یہ بھی] وتر ہی ہیں، اس لئے رمضان میں قنوت جائز ہونے کی طرح دیگر ایام میں بھی جائز ہوگی، جس طرح دیگر [نماز کیساتھ مخصوص] اذکار بھی سارا سال نماز میں پڑھے جاسکتے ہیں" انتہی
ماخوذ از: "المغنی" (1/447)
دوم:
دعائے قنوت زیادہ لمبی کرنا بھی مناسب نہیں ہے، بلکہ امام بغوی کہتے ہیں کہ:
"دعائے قنوت لمبی کرنا بھی اسی طرح مکروہ ہے، جیسے پہلے تشہد کو لمبا کرنا مکروہ ہے" [ بغوی کے اس قول کو نووی نے المجموع 3/479 میں نقل کیا ہے]
قاضی حسین کہتے ہیں:
"عادت سے زیادہ لمبی قنوت کرنا مکروہ ہے، [قنوت لمبی کرنے کی وجہ سے]نماز کے باطل ہونے کے متعلق دو نوں احتمال [پائے جاتے ہیں]"
[اس قول کو خطيب شربينی نے مغنی المحتاج 1/167 میں ذکر کیا ہے]
اسی لئے دعائے قنوت کرنے والے شخص کو اس عمل سے بھی بچنا چاہئے کہ بعض ائمہ حضرات دعا میں قبر، حشر، حساب و کتاب وغیرہ کے حالات ذکر کرتے ہوئے اسے بھی وعظ بنا دیتے ہیں، حالانکہ ان سب چیزوں کیلئے مناسب جگہ خطبہ اور تقریر میں ہوتی ہے، دعا یا دعائے قنوت میں نہیں ؛ بلکہ اگر صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیکھائی ہوئی دعا پر ہی اکتفاء کر لیں تو بہت اچھا ہے، یا تھوڑا سا اس میں مزید [مسنون دعاؤں کا]اضافہ کر لیں تو یہ زیادہ افضل ہے۔
دعائے قنوت چھوٹی سی دعا ہے، آپ اسے یاد کریں، اس لئے آپکو لکھ کر کاغذ سے دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
اور اگر دعائے قنوت کے ساتھ مسنون نبوی دعائیں ملا لیں تو یہ بھی اچھا ہے، اور یہ کام آسان بھی ہے ۔ ان شاء اللہ۔
اور اگر بالفرض امام یا نمازی کو وتروں کی مسنون دعا یاد نہیں ہے، تو اسوقت کوئی بھی دعا کو بطورِ قنوت پڑھ سکتا ہے، کیونکہ دعائے قنوت کیلئے خاص الفاظ کی پابندی ضروری نہیں ہے، قاضی عیاض نے اس کے بارے میں علمائے کرام کا اتفاق نقل کیا ہے۔ دیکھیں: [ المجموع 3/477]
جب ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ دعائے قنوت میں اصول یہ ہے کہ دعا مختصر ہو، دعائے قنوت لمبی کرنا سنت کی مخالفت ہے، اسی طرح دعائے قنوت کیلئے کسی خاص دعا کی پابندی بھی ضروری نہیں ہے، حتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منقول دعا پر ہی اکتفاء کرنا بھی ضروری نہیں تو پھر دعا کاغذ پر لکھنے کی کوئی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی، اور نہ ہی نماز میں اسے دیکھ کر پڑھنے سے کوئی فائدہ ہوگا، بلکہ ہمیں تو یہ لگتا ہے کہ دعائیں لکھنے کی ضرورت اس لئے پڑی ہے کہ کچھ ائمہ کرام پرتکلف اور مسجع دعائیں پڑھ کر قنوت لمبی کرنے کے عادی بن چکے ہیں، اور عام طور پر ائمہ کرام یہی کر رہے ہیں۔
حالانکہ نمازی کیلئے ضروری امر یہ ہے کہ تدبر، اور حاضر دلی کیساتھ دعائیں مانگے، جیسے کہ ترمذی (3479)نے ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ سے مانگو تو قبولیت کے یقین سے مانگو، یاد رکھو! اللہ تعالی غافل اور لاپرواہ دل کی دعا قبول نہیں کرتا) اس حدیث کو البانی نے صحیح ترمذی میں حسن کہا ہے۔
سوم:
روزے دار کیلئے ٹوتھ پیسٹ استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن گلے سے نیچے اتارنے سے پرہیز ضروری ہے۔
تفصیلی جواب کیلئے سوال نمبر: (13619) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم .