سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

اعضائے تناسلى ميں كمزورى كى بنا پر مكمل مہينہ حيض آنا

93053

تاریخ اشاعت : 30-08-2009

مشاہدات : 5452

سوال

ہمارے خاندان ميں ايك ايسى عورت ہے جسے اعضاء تناسليہ ميں كمزورى كى بنا پر سارا ماہ ہى حيض آتا رہتا ہے، اور اب وہ علاج كروا رہى ہے، اور اب رمضان آ گيا ہے وہ دريافت كرتى ہے آيا وہ روزے ركھے يا نہ ركھے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جسے سارا ماہ ہى خون آتا رہے وہ استحاضہ والى عورت شمار ہو گى، اگر تو اسے حيض آنے ميں كوئى مقررہ ايام كى عادت ہو تو وہ اپنى عادت كے مطابق اتنے ايام حيض شمار كر كے عبادت سے ركى رہے، اور پھر غسل كر كے مہينے كے باقى ايام نماز روزہ ادا كريگى چاہے خون آتا بھى رہے.

اور اگر اسے عادت معلوم نہ ہو اور نہ ہى كوئى محدود مدت معلوم ہو يا پھر وہ بھول چكى ہو تو وہ عورت خون كى تميز پر عمل كريگى اگر ممكن ہو سكے، كيونكہ حيض اور استحاضہ كا خون عليحدہ ہوتا ہے جس كے رنگ اور بو ميں فرق پايا جاتا ہے، حيض كا خون سياہى مائل اور بدبودار اور گاڑھا ہوتا ہے، ليكن استحاضہ كا خون سرخ اور عام خون كى طرح پتلا ہوتا ہے.

اس ليے جن ايام ميں حيض كى صفات والا خون ہو وہ حيض شمار ہوگا، اور اس كے علاوہ ايام ميں وہ پاك شمار ہو گى اور اسے نماز روزہ ادا كرنا ہوگا.

اور اگر خون ميں صفات كے ساتھ امتياز كرنا ممكن نہ ہو تو وہ عورت چھ يا سات دن بيٹھےگى اور نماز روزہ ادا نہيں كريگى، كيونكہ غالب طور پر عورتوں كے ہاں اتنے ايام ہى حيض آتا ہے، اس كے بعد وہ غسل كرے اور نماز روزہ ادا كريگى.

استحاضہ والى عورت كے متعلق سنت نبويہ ميں وارد ہے كہ ـ اگر اسے عادت معلوم ہو ـ ت واسے اپنى عادت كى طرف رجوع كرنا ہوگا.

صحيح بخارى ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے كہ:

" فاطمہ بنت ابى حبيش رضى اللہ تعالى عنہا نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كرتے ہوئے كہا:

ميں استحاضہ والى عورت ہوں اور پاك نہيں ہوتى كيا ميں نماز چھوڑ دوں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

نہيں، يہ ايك رگ كا خون ہے، ليكن جتنے ايام تمہيں حيض آتا تھا اتنے ايام نماز ترك كرو، پھر غسل كر كے نماز ادا كرو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 319 ).

اور خون ميں تميز كرنے پر اعتماد كرنے كى دليل سنن نسائى اور ابو داود كى درج ذيل حديث ہے:

فاطمہ بنت ابى حبيش رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ انہيں استحاضہ آتا تھا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں فرمايا:

" جب تمہيں حيض كا خون آئے كيونكہ وہ سياہ رنگ كا معروف ہے تو تم نماز ادا نہ كرو، اور اگر دوسرا خون ہو تو وضوء كر كے نماز ادا كرو كيونكہ يہ رگ كا خون ہے "

سنن نسائى حديث نمبر ( 125 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 304 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور استحاضہ والى عورت كا ـ اگر اس كى عادت معروف نہ ہو اور نہ ہى خون ميں تميز ہوتى ہو ـ تو چھ يا سات يوم تك نماز روزہ ادا نہ كرنا كے دليل ترمذى اور ابو داود كى درج ذيل حديث ہے:

حمنہ بنت جحش رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ مجھے بہت شديد حيض آتا تھا، اس ليے ميں نے عرض كيا اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم مجھے بہت شديد حيض آتا ہے آپ مجھے كيا حكم ديتے ہيں ؟ جس نے مجھے نماز اور روزے سے روك ديا ہے.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" يہ شيطان كى طرف سے ايك كچوكہ ہے چنانچہ تم اللہ كے علم ميں چھ يا سات يوم حيض شمار كرو، پھر غسل كر لو تو جب تم ديكھو كہ پاك صاف ہو گئى ہو تو باقى چوبيس يا تئيس راتيں اور دن نماز روزہ ادا كرو، يہ تمہيں كافى ہے، اور اسى طرح تم كرو جس طرح حيض والى عورتيں كرتى ہيں، اور جس طرح وہ اپنے وقت پر حيض سے پاك صاف ہوتى ہيں "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 128 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 287 ) ترمذى رحمہ اللہ كہتے ہيں كہ ميں نے اس حديث كے متعلق محمد يعنى بخارى رحمہ اللہ سے پوچھا تو انہوں نے اسے كو حسن صحيح كہا، اور اسى طرح امام احمد بن حنبل نے بھى اس حديث كو حسن صحيح كہا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب