منگل 7 رجب 1446 - 7 جنوری 2025
اردو

کیا اہل سنت و الجماعت کے ہاں ایمان کم یا زیادہ ہوتا ہے؟

سوال

اہل سنت وا لجماعت کے ہاں ایمان کی کیا تعریف ہے، اور کیا ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اہل سنت وا لجماعت کے ہاں ایمان کی تعریف کچھ یوں ہے: زبان سے اقرار، دل سے تصدیق اور اعضا سے عمل کا نام ایمان ہے، اس طرح ایمان کی اس تعریف میں تین چیزیں پائی جاتی ہیں:

  • دل سے تصدیق
  • زبان سے اقرار
  • اعضا سے عمل

چنانچہ اگر ایمان کے یہ تین اجزا ہیں تو پھر اس میں کمی بیشی کا ہونا فطری چیز ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ مختلف امور میں ایک ہی شخص کی دل سے تصدیق یکساں نہیں ہو سکتی کیونکہ خبر سننے کے بعد دل سے کسی چیز کی تصدیق کرنا اپنی آنکھوں سے دیکھ کر تصدیق کرنے کے برابر نہیں ہو سکتا، اسی طرح دو افراد کی طرف سے ملنے والی خبر کی قلبی تصدیق ایک فرد سے ملنے والی خبر سے قدرے مختلف ہو گی، زیادہ ہونے پر تصدیق مزید محکم ہو جائے گی۔ اسی لیے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا تھا: رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي مفہوم: میرے پروردگار! مجھے دکھا کہ تو کیسے مردوں کو زندہ کرتا ہے؟ اللہ نے فرمایا: کیا تو ایمان نہیں رکھتا؟ ابراہیم نے کہا: کیوں نہیں، ایمان تو ہے، لیکن دیکھنا چاہتا ہوں تا کہ میرا دل مطمئن ہو جائے۔[البقرۃ: 260]

تو ثابت ہوا کہ قلبی تصدیق کے حوالے سے ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے، لہذا جب قلبی اطمینان اور سکون ہو گا تو تصدیق میں اضافہ ہو گا۔ پھر انسان کو بھی اس چیز کا احساس ہوتا ہے کہ جب کسی ذکر کی محفل میں انسان حاضر ہو وہاں جنت و جہنم کا ذکر کیا جائے تو ایمان میں اضافہ ہوتا ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ انسان جنت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے، لیکن جب انسان پر غفلت طاری ہو اور ایسی مجلس سے دور ہو تو یہی یقین کم تر درجے میں آ جاتا ہے۔

بالکل ایسے ہی ایمان زبانی چیزوں سے بھی بڑھتا ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص اللہ تعالی کا ذکر متعدد مرتبہ کرے، لیکن دوسرا شخص 100 بار کرے تو ظاہر سی بات ہے دوسرا شخص پہلے سے کہیں آگے ہے۔

اسی طرح مکمل انداز سے عبادت کرنے والا شخص یقینی طور پر ایسے شخص سے اعلی اور افضل ہو گا جو ناقص طریقے سے عبادت کرتا ہے۔

تو یہی معاملہ عمل کا بھی ہے کہ اپنے اعضا کو زیادہ دیر عمل میں مصروف رکھنے والا شخص کم مصروف رکھنے والے سے افضل ہو گا اور اسی کا ایمان دوسرے کی بہ نسبت زیادہ بھی ہو گا، قرآن کریم میں ایمان کے کم یا زیادہ ہونے کے متعلق بڑی وضاحت سے آیا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ إِلا فِتْنَةً لِلَّذِينَ كَفَرُوا لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا  ترجمہ: اور ہم نے ان کی تعداد کو کافروں کے لیے آزمائش بنا دیا ہے تاکہ اہل کتاب کو یقین آ جائے اور ایمانداروں کا ایمان زیادہ ہو ۔ [المدثر: 31]

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَذِهِ إِيمَانًا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ (124) وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا إِلَى رِجْسِهِمْ وَمَاتُوا وَهُمْ كَافِرُونَ  ترجمہ: اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو بعض منافقین کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان کو زیادہ کیا سو جو لوگ ایماندار ہیں اس سورت نے ان کے ایمان کو زیادہ کیا ہے اور وہ خوش ہو رہے ہیں۔ [124] اور جن کے دلوں میں روگ ہے اس سورت نے ان میں ان کی موجودہ گندگی کے ساتھ اور گندگی بڑھا دی اور وہ حالت کفر ہی میں مر گئے۔ [التوبہ: 124 – 125]

اسی طرح صحیح حدیث میں ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خواتین سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: (میں نے تم سے بڑی کم عقل اور کم دین والی کوئی نہیں دیکھی جو عقل مند شخص کی عقل ختم کر دے۔) تو اس سے معلوم ہوا کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: مجموع فتاوی ورسائل : فضیلۃ الشیخ بن عثیمین (1 / 49)