الحمد للہ.
مسلمان شخص كا اپنے مسلمان اپنے بھائيوں كو خير و بھلائى اور نيكى كے كام ياد دلانا مشروع ہے، مثلا سبحان اللہ الحمد للہ و اللہ اكبر وغيرہ دوسرے اذكار اور اس كى ترغيب بھى دلائى گئى ہے، كيونكہ كسى خير و بھلائى كى طرف راہنمائى كرنے والا عمل كرنے والے كى طرح ہى ہے، چاہے يہ ياد دہانى بالمشافہ كرائى جائے يا پھر اليكٹرانك ميسج كے ذريعہ يا موبائل كے ذريعہ، اور اگر وہ اسے دوسروں كو بھى بھيجنے كى درخواست كرتا ہے تو يہ بھى اچھا اور بہتر ہے، تا كہ خير و بھلائى عام ہو اور نيكى پھيلے.
ليكن اس ميں صرف ممنوع اورغلط كام صرف اتنا ہے كہ اسے كسى تعداد كے ساتھ محدود كر ديا جائے، يا پھر ميسج آگے نہ بھيجنے والے كو گنہگار گردانا جائے، مثلا يہ كہا جائے كہ يہ ميسج دس افراد كو بھيجيں اور اگر آپ ايسا نہيں كرينگے تو آپ كو يہ نقصان اور ضرر ہو گا، يہ باطل اور من گھڑت بہتان ہے اور لوگوں كو ايسى چيز كا التزام كرنے كا كہا جا رہا ہے جو شريعت نے لازم نہيں كى.
ايسا كہنے والے كے ليے خدشہ ہے كہ كہيں اسے اللہ پر بہتان باندھنے كى سزا ميں عذاب ميں مبتلا نہ ہونا پڑ جائے، اور وہ ايسا كام كرنے كى سزا بھگتے جس كا اللہ نے حكم نہيں ديا.
سوال ميں بھى اس طرح كا ہى مسئلہ ہے كہ اى ميل كرنے والے كى جانب سے كہا گيا ہے: جو كوئى بھى اس ليٹر كو پڑھے وہ اسے لوگوں ميں تقسيم كرے اور چار دن انتظار كرے اسے ضرور خوشى و فرحت حاصل ہو گى، اور اگر ايسا نہيں كريگا تو اسے بہت زيادہ غم اور حزن و ملال اٹھانا پڑيگا، يہ دھوكہ و فراڈ اور جھوٹ و كذب بيانى پر مشتمل ہے، اور دين ميں ابتداع يعنى بدعت كى ايجاد ہے.
مزيد آپ سوال نمبر (31833 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
اس ليے اس طرح كے ليٹر اور ميسج جن ميں كوئى وعدہ يا وعيد ہو يعنى كوئى اجروثواب يا سزا اور نقصان بيان كيا گيا ہو نشر كرنے يا ان تصديق كرنى جائز نہيں، بلكہ لوگوں كو اس سے بچنے اور اجتناب كرنے كا كہا جائے، اور اسے بھيجنے والوں سے بھى اجتناب كرنا چاہيے.
واللہ اعلم .