اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

خطبہ جمعہ كا ترجمہ كرنا

984

تاریخ اشاعت : 30-05-2006

مشاہدات : 13602

سوال

اگر جمعہ ميں حاضرين كى اكثريت عربى زبان سے ناواقف ہو تو كيا امام جمعہ كا خطبہ انگلش ميں دے سكتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بعض اہل علم نے جمعہ المبارك اور عيدين كا خطبہ عربى كے علاوہ كسى اور زبان ميں دينے سے منع كيا ہے، اس ميں ان كى رغبت يہ رہى كہ عربي زبان باقى اور محفوظ رہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے صحابہ كرام كے طريقہ پر چلا جا سكے، جو دوسرے ملكوں ميں بھى عربى زبان ميں ہى خطبہ ديتے تھے، اور پھر لوگوں كو عربى زبان سيكھنے پر ابھارا جا سكے.

اور كچھ اہل علم كا كہنا ہے كہ اكثر جمعہ كى نماز ميں حاضرين كى اكثريت عربى زبان نہ سمجھتى ہو تو پھر اسے خطبہ كا دوسرى زبان ميں ترجمہ كرنا جائز ہے، تاكہ خطبہ كے اس معنى كو سمجھا جا سكے جس كى بنا پر يہ مشروع كيا گيا ہے، اور وہ يہ ہے كہ لوگوں احكام شريعت كى سمجھ آئے اور منع كردہ اشياء كا علم ہو سكے، اور انہيں اخلاق كريمہ اور اچھى صفات كى راہنمائى كى جاسكے، اور برے اخلاق سے محفوظ كيا جائے.

اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ الفاظ كا خيال ركھنے كى بجائے معانى اور خطبہ كے مقاصد كا خيال ركھنا زيادہ اولى اور واجب ہے، اور خاص كر جب مخاطب لوگ عربى سے ناواقف ہوں اور خطيب كا عربى زبان ميں خطبہ ان پر كچھ اثر بھى نہ كرے، اورنہ ہى وہ انہيں عربى زبان سيكھنے اور اس كى حرص كى طرف لے جاتا ہو.

( اور خاص كر اس وقت جس ميں مسلمان پيچھے رہ چكے ہيں، اور مسلمانوں كے علاوہ دوسرے لوگ آگے بڑھ چكے ہيں، اس دنيا ميں غالب زبان چھا چكى ہے، اور مغلوب زبان دب چكى ہے ).

اور اگر غير عرب لوگوں ميں شريعت اسلامى كے احكام اور علم شرعى عربى كے علاوہ كسى دوسرى زبان ميں خطبہ ديے بغير نہيں پھيلتے اور وہ اس كى تعليم حاصل نہيں كر سكتے تو پھر مخاطبين كى زبان جسے وہ سمجھتے ہيں اس ميں خطبہ كا ترجمہ كرنا جائز ہے، بلكہ ان زبانوں ميں جو اس وقت معروف ہيں ميں خطبہ دينا زيادہ حق ركھتا ہے، خاص كر جب اس زبان ميں خطبہ نہ ديا جائے تو يہ نزاع اور جھگڑے كا باعث بنتا ہو، تو اس ميں كوئى شك نہيں كہ خطبہ كسى دوسرى زبان ميں ديا جائے، تا كہ مصلحت حاصل ہو اور فساد سے بچا جائے.

اور اگر حاضرين ميں عربى سمجھنے والے بھى ہوں تو پھر خطيب كو چاہيے كہ وہ عربى ميں خطبہ دے اور پھر وہى خطبہ دوسرى زبان ميں دھرائے تا كہ باقى لوگ بھى سمجھ سكيں، تو اس طرح دونوں مصلحتيں جمع ہو جائينگى اور نقصان و ضرر جاتا رہے گا، اور مخاطبين ميں نزاع بھى ختم ہو جائے گا.

شريعت مطہرہ ميں اس كے بہت سے دلائل ملتے ہيں، اس ميں يہ فرمان بارى تعالى بھى شامل ہے:

ہم نے جو رسول بھى مبعوث كيا وہ اس كى قوم كى زبان جانتا تھا تا كہ وہ ان كے ليے بيان كر سكے.

اور اس ميں يہ بھى شامل ہے كہ:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے زيد بن ثابت رضى اللہ تعالى عنہ كو يہوديوں كى زبان سيكھنے كا حكم ديا تا كہ يہوديوں سے خط و كتابت كى جا سكے، اور اس طرح يہوديوں پر حجت قائم ہو جائے، اور اسى طرح اگر ان كى طرف سے كوئى خط وغيرہ آئے تو اسے پڑھے، اور ان كى مراد كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے واضح كرے.

اور اس ميں يہ بھى شامل ہے كہ:

جب صحابہ كرام رضى اللہ تعالى عنہم نے عجم كے علاقے فارس اور روم ميں جا كر جھاد كيا اور جنگيں لڑيں تو انہيں سب سے پہلے اسلام كى دعوت دى اور يہ ترجمانوں كے ذريعہ دعوت دى گئى اس كے بغير جنگ نہيں لڑى، اور جب ان عجمى علاقوں كو فتح كيا تو لوگوں كى اللہ تعالى كى طرف دعوت عربى زبان ميں دى اور عربى زبان سيكھنے كا حكم ديا، اور جو شخص عربى سے جاہل اور ناواقف رہا اسے اس كى مادرى زبان ميں ہى دعوت اسلام دى، اور اسے اس كى اپنى زبان كے ساتھ ہى اسلام كو سمجھايا تا كہ حجت قائم ہو جائے.

اس ميں كوئى شك نہيں كہ اس راستے پر چلنا ہو گا، اور خاص كر آخرى دور ميں جب اسلام ايك اجنبى اور غريب دين بن چكا ہو گا، اور ہر قوم اپنى زبان كو استعمال كر رہى ہو، تو اس وقت ترجمہ اور ان كى زبان استعمال كرنے كى بہت زيادہ ضرورت ہے، اور دعوت كا كام ان كى زبان كے بغير مكمل ہى نہيں ہو سكتا.

لہذا خطيب كو چاہيے كہ وہ حاضرين كا خيال ركھے كہ ان كے ليے زيادہ بہتر كيا رہيگا، اگر تو زيادہ فائدہ مند يہ ہو كہ عربى زبان ميں كچھ دير بولے اور پھر اس كا ان كى زبان ميں ترجمہ كرے اور اس طرح خطبہ مكمل كر لے تو اسے ايسا كرنا چاہيے، اور اگر حاضرين كے ليے زيادہ فائدہ مند يہ ہو كہ عربى ميں خطبہ دے كر نماز سے قبل يا نماز كے بعد ان كى زبان ميں ترجمہ كر ديا جائے تو ايسا كرنا چاہيے.

واللہ تعالى اعلم .

ماخذ: ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 8 / 251 - 255 )