جمعرات 25 جمادی ثانیہ 1446 - 26 دسمبر 2024
اردو

عزل كرنا اور كنڈوم كا استعمال

تاریخ اشاعت : 16-02-2012

مشاہدات : 33015

سوال

كيا رخصتى كے بعد پہلى رات آدمى كے ليے مانع حمل مثلا كنڈوم وغيرہ استعمال كرنا جائز ہے يا نہيں ؟
ميں يہ سوال اس ليے كر رہا ہوں كہ ہو سكتا ہے اللہ كے حكم سے بيوى كو حمل ہو جائے، ليكن ہم اپنى شادى كے فورا بعد اتنى جلدى اولاد پيدا نہيں كرنا چاہتے، برائے مہربانى اس كى وضاحت فرمائيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر خاوند اولاد نہ چاہتا ہو تو عزل كرنا جائز ہے، اور اسى طرح كنڈوم استعمال كرنا بھى جائز ہے، ليكن اس ميں ايك شرط ہے كہ عزل وغيرہ كے ليے بيوى كى اجازت لينا ضرورى ہے كيونكہ بيوى كو بھى اولاد لينے كا حق ہے.

اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:

جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" ہم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں عزل كيا كرتے تھے، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اس كى خبر پہنچى تو آپ نے ہميں اس سے منع نہيں فرمايا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 250 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 160 ).

ليكن يہ جائز ہونے كے ساتھ ساتھ بہت شديد قسم كا مكروہ عمل ہے، كيونكہ صحيح مسلم ميں حديث مروى ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عزل كرنے كے بارہ ميں دريافت كيا گيا تو آپ نے فرمايا:

" يہ تو خفيہ طور پر بچے كو زندہ درگور كرنا ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1442 ).

يہ حديث اس كے بہت زيادہ مكروہ ہونے كى دليل ہے.

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں كہ:

عزل يہ ہے كہ جب بيوى سے جماع كيا جائے اور جب انزال قريب ہو تو عضو تناسل باہر كھينچ كر انزال شرمگاہ سے باہر كيا جائے، ہمارے نزديل يہ ہر حالت ميں مكروہ ہے اور ہر عورت كے ليے مكروہ ہے چاہے وہ عزل پر راضى ہو يا راضى نہ ہو، كيونكہ يہ نسل كشى ہے.

اسى ليے حديث ميں اسے " خفيہ طور پر بچہ زندہ درگور كرنا ) كہا گيا ہے، كيونكہ اس طرح بچہ پيدا ہونے كى راہ بند كر دى جاتى ہے بالكل اسى طرح جس طرح بچے كو زندہ درگور كر كے قتل كيا جاتا ہے، رہا مسئلہ اس كے حرام ہونے كا تو ہمارے اصحاب اسے حرام نہيں كہتے....

پھر اس سلسلہ ميں جتنى احاديث وارد ہيں ان ميں جمع اس طرح ہو سكتا ہے كہ جن احاديث ميں نہى ہے اسے كراہت تنزيہ پر محمول كيا جائيگا، اور جن احاديث ميں اجازت دى گئى ہے انہيں اس پر محمول كيا جائيگا كہ ايسا كرنا حرام نہيں، اور اس كا يہ معنى نہيں كہ يہاں كراہت كى نفى كى جا رہى ہے " اھـ مختصرا

لہذا مسلمان شخص كو ايسا اسى صورت ميں كرنا چاہيے جب اس كى ضرورت ہو، مثلا اگر بيوى مريض ہو اور حمل برداشت نہ كرسكتى ہو يا پھر اس پر اس ميں مشقت ہوتى ہو، يا پھر تسلسل كے ساتھ حمل اسے نقصان ديتا ہو اور اس ميں كچھ وقفہ دركار ہو تو پھر جائز ہے.

اور اس ليے بھى كہ عزل كرنے ميں نكاح كا مقصد ہى فوت ہو جاتا ہے، كيونكہ نكاح كے مقاصد ميں كثرت نسل شامل ہے اور پھر عزل كرنے ميں عورت كى لذت كى تكميل بھى نہيں ہوتى، كيونكہ عورت كو لذت تو انزال كے بعد آتى ہے.

مزيد آپ سوال نمبر ( 3767 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب