اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

شادی کی ابتداء میں منع حمل

3767

تاریخ اشاعت : 29-01-2005

مشاہدات : 10402

سوال

میرا خاوند یہ نہیں چاہتا کہ بچے پیدا ہوں ، اورہمیشہ ہی وہ حمل کے ابتدائي مراحل میں مجھ سے مطالبہ کرتا ہے کہ میں حمل ساقط کرادوں ( ماہواری ختم ہونے کے پہلے ہفتہ میں ہی ) تواس میں اسلام کا حکم کیا ہے ؟
خاوند کا کہنا ہے کہ اس کے بارہ میں ساری مسؤلیت اس کی ہے ، جب وہ ایسا کرنے پر حریص ہوتومجھے کیا کرنا چاہیے ، باقی معاملات میں وہ بہت ہی اچھا مسلمان خاوند ہے ؟
آّّپ سے گزارش ہے کہ آپ میری راہنمائی فرمائيں ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

مندرجہ ذيل سوال فضیلۃ الشيخ محمد بن صالح عثيمین رحمہ اللہ تعالی کے سامنے پیش کیا گيا :

کیا شادی کے ابتدائي دوبرس میں خاوند اوربیوی کی رضامندی سےمنع حمل جائز ہے ، تا کہ خاوند اوربیوی کے مابین ازدواجی زندگي میں استمرار پر اطمنان ہوسکے ؟

توشیخ رحمہ اللہ تعالی کا مندرجہ ذيل جواب تھا :

ایسا کرنا حرام نہیں ، لیکن بہتر اورافضل یہ ہے کہ ایسا نہ کیا جائے بلکہ انہیں نیک ‎‎شگون اورنیک فال لینی چاہیے اوراللہ تعالی پر حسن ظن رکھنا چاہیے ۔ انتھی ۔

اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ بچہ کی پیدائش میں جلدی خاوند اوربیوی کے مابین محبت والفت اورتعلقات میں زيادتی اوررشک و غبطہ پیدا کرے ، اوروہ بچہ خاوند اوربیوی اوران کے خاندان والوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنے ۔

اللہ سبحانہ وتعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد