الحمد للہ.
اول:
اگر آپ كے گھر والے ( ماں باپ اور بھائى ) فقير و تنگ دست ہيں، اور آپ ان پر خرچ كر سكتى ہيں تو ان پر خرچ كرنا آپ كے ليے واجب ہے، اس سلسلہ ميں آپ كے ليے اپنے خاوند كى اطاعت كرنا جائز نہيں كہ خاوند كى بات مان كر ان پر خرچ نہ كريں، بلكہ خرچ كرنا واجب ہے.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 44995 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
دوم:
اگر آپ كا اپنے ماں باپ اور بہن بھائيوں پر خرج نفلى ہے يعنى وہ اس كے محتاج نہيں بلكہ آپ ان كے ساتھ احسان و حسن سلوك چاہتى ہيں تو پھر عورت كے ليے خاوند كى اجازت كے بغير اپنا مال نفلى طور پر خرچ كرنے ميں اختلاف پايا جاتا ہے.
جمہور علماء كرام كہتے ہيں عورت اپنا مال خرچ كرنے سے مت ركے، اسے خاوند كى اجازت كے بغير اپنے مال ميں تصرف كرنے كا حق حاصل ہے، انہوں نے درد ذيل دلائل سے استدلال كيا ہے:
1 ـ ام المومنين ميمونہ بنت حارث رضى اللہ تعالى عنہا نے اپنى لونڈى آزاد كى اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كى اجازت نہيں مانگى، جب ان كى بارى ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ميمونہ رضى اللہ تعالى عنہا كے گھر آئے تو انہوں نے عرض كيا:
" اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا آپ نے محسوس نہيں كيا كہ ميں نے اپنى لونڈى آزاد كر دى ہے ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: كيا تم نے ايسا ہى كيا ہے ؟
ميمونہ رضى اللہ تعالى عنہا نے عرض كيا: جى ہاں.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اگر تم نے يہ لونڈى اپنے ماموؤں كو دى ہوتى تو تمہيں اس كا زيادہ اجروثواب حاصل ہوتا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2592 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 999 ).
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس ميں عورت كے ليے خاوند كى اجازت كے بغير اپنا مال اللہ كى راہ ميں خرچ كرنے كا جواز پايا جاتا ہے "
ـ جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ عيد الفطر كے دن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے پہلے نماز پڑھائى اور پھر خطبہ ارشاد فرمايا، جب خطبہ سے فارغ ہوئے تو عورتوں كے پاس آئے اور انہيں وعظ و نصيحت فرمائى تو آپ بلال رضى اللہ تعالى عنہ كے ہاتھ پر سہارا ليے ہوئے تھے اور بلال رضى اللہ تعالى عنہ نے اپنا كپڑا پھيلا ركھا تھا جس ميں عورتيں صدقہ كا مال ڈال رہى تھيں "
اور ايك روايت ميں ہے:
" تو عورتيں اپنا زيور صدقہ كرنے لگيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 978 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 885 ).
اس حديث ميں عورت كا اپنے خاوند كے بغير اپنا مال صدقہ كرنے كى دليل پائى جاتى ہے " اھـ
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس حديث ميں عورت كے ليے اپنے خاوند كى اجازت كے بغير مال صدقہ كرنے كى دليل پائى جاتى ہے، ہمارے اور جمہور علماء كے مسلك كے مطابق يہ عورت كے ايك تہائى مال پر متوقف نہيں.
امام مالك رحمہ اللہ كہتے ہيں كہ:
عورت كے ليے اپنے ايك تہائى مال سے زائد سے زيادہ جائز نہيں، بلكہ اس كے ليے اسے خاوند كى اجازت لينا ہوگى.
ہمارى دليل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى يہ حديث ہے كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان صدقہ كرنے والى عورتوں سے يہ دريافت نہيں كيا تھا كہ آيا انہوں نے اپنے خاوندوں سے اجازت لى ہے يا نہيں ؟
اور آيا كيا يہ ايك تہائى سے زائد ہے يا نہيں ؟ اگر اس سے حكم مختلف ہوتا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم صحابيات سے ضرور دريافت فرماتے " انتہى
كچھ علماء كرام يہ كہتے ہيں كہ بيوى اپنے خاوند كى اجازت كے بغير اپنے مال ميں سے كچھ بھى اللہ كى راہ ميں خرچ نہيں كر سكتى، انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان سے استدلال كيا ہے:
" عورت كے ليے خاوند كى اجازت كے بغير عطيہ دينا جائز نہيں "
مسند احمد حديث نمبر ( 6643 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 3547 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور جمہور علماء كرام نے اس حديث كو ايسى كم عقل اور بےوقوف عورت پر محمول كيا ہے جو اپنے مال ميں بہتر طريقہ سے تصرف نہ كر سكتى ہو، يا پھر اس ميں عورت كا اپنے خاوند سے اجازت لينا مستحب ہے، واجب نہيں اور حس معاشرت ميں بھى شامل ہوتا ہے.
خطابى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اكثر فقھاء كرام كے ہاں يہ خاوند سے حسن معاشرت معاشرت اس كا دل ركھنا ہے، ليكن اگر يہ عورت بےوقوف اور كم عقل ہو تو پھر اجازت لينا ہوگى، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ نے عورتوں كو صدقہ كرنے كا كہا، تو عورتيں اپنى بالياں اور انگوٹھياں پھينك رہى تھيں جنہيں بلال رضى اللہ تعالى عنہ اپنى چادر ميں ڈال رہے تھے، اور يہ عطيہ ان كے خاوندوں كى اجازت كے بغير تھا " اھـ
امام شوكانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس حديث سے يہ بھى استدلال كيا جاتا ہے كہ عورت كے ليے اپنے خاوند كى اجازت كے بغير اپنا مال عطيہ كرنا جائز نہيں چاہے عورت عقل و رشد والى بھى ہو، اس ميں علماء كرام كا اختلاف ہے:
ليث كہتے ہيں: يہ مطلقا جائز نہيں، نہ تو ايك تہائى مال ميں اور نہ ہى اس سے كم ميں، ليكن قليل سى چيز ميں جائز ہے.
طاؤوس اور امام مالك رحمہما اللہ كہتے ہيں: خاوند كى اجازت كے بغير عورت اپنے ايك تہائى مال ميں سے عطيہ كر سكتى ہے، ليكن اس سے زائد ميں اسے خاوند كى اجازت حاصل كرنا ہوگى.
اور جمہور علماء كرام كہتے ہيں كہ اگر كم عقل اور بےو قوف نہ ہو تو مطلق طور پر خاوند كى اجازت كے بغير عورت كا عطيہ كرنا جائز ہے، ليكن اگر بےوقوف اور كم عقل ہو تو پھر جائز نہيں.
فتح البارى ميں درج ہے: جمہور كے دلائل كتاب و سنت ميں بہت زيادہ ہيں " اھـ
ديكھيں: نيل الاوطار ( 3 / 414 ).
اس بنا پر عورت كو اپنے مال ميں سے كچھ صدقہ كرنے سے نہيں روكا جائيگا، چاہے ايسا كرنے ميں خاوند راضى نہ بھى ہو تب بھى كريگى.
ليكن اس ميں بہتر يہى ہے كہ وہ اپنے خاوند كا دل ركھنے كے ليے خاوند كى اجازت حاصل كرے، تا كہ خاوند كے دل ميں بيوى كے بارہ ميں غلط تصرف كا گمان نہ پيدا ہو، اور خاوند كو بھى چاہيے كہ وہ نيكى و احسان اور خير و بھلائى اور لوگوں كے ساتھ حسن سلوك كرنے ميں بيوى كے ليے مانع نہ بنے.
مزيد آپ سوال نمبر ( 21684 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .