الحمد للہ.
اس میں کوئ حرج نہیں کہ آپ کی بہن آپ کومال بطور قرض دے اورآپ اسے تجارت ميں لگائيں جس کا نفع خود رکھیں اور اصل مال آپ کی بہن کا ہی رہے ، لیکن اگر آپ کی بہن اصل مال کواپنی جگہ پر رکھتے ہوۓ نفع میں آپ کے ساتھ شریک ہونا چاہے تو یہ جائز نہیں ۔
اس لیے کہ اس کا تعلق ایسے مسئلہ سے ہوگا جس کے بارہ میں ہے کہ " ہر وہ قرض جونفع حاصل کرنے کا باعث ہو وہ سود ہے " اس لیے جائز نہیں ، اورآپ کویہ مال دینے میں اس کے لیے کوئ شرط نہيں کہ وہ اپنے خاوند کوبھی اس پر مطلع کرے ۔
کیونکہ یہ مال اس کی ملکیت ہے اوراس کے خاوند کے لیے بیوی کے مال میں سے کچھ بھی حلال نہیں لیکن اگر بیوی خود اپنا مال اسے خوشی سے دینا چاہے تواس میں کوئ حرج نہیں ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :
اور عورتوں کو ان کے مہر راضي خوشی دے دو ، ہاں اگر وہ خود اپنی مرضی اورخوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہوکر کھاؤ پیئو النساء ( 4 ) ۔
لیکن اچھی زندگی بسرنے کرنے کے لیے آپ کو ہم یہ نصیحت کرتے ہیں کہ مرد کوتجارتی کاموں میں تجربہ اورمہارت ہوتی ہے اس لیے آپ جو کچھ اپنے مال میں کرنا چاہتی ہیں اسے اپنے خاوند کےعلم لائیں تا کہ وہ کوئ اچھا مشورہ دے سکے ۔
شیخ عبداللہ بن جبرین حفظہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
بیوی اپنے مال کی مالک ہےاوراسے اس میں تصرف کرنے کابھی حق حاصل ہے ، وہ اس میں سے ھدیا اورتحفہ بھی دے سکتی اورصدقہ بھی کرسکتی ہے ، اوراپنے جرمانے وغیرہ بھی ادا کرسکتی ہے ۔
اوراسی طرح وہ اپنے حق کومعاف بھی کرسکتی ہے مثلا کسی سے قرض لینا ہو یا پھرکسی دوریا نزدیکی رشتہ دار کےلیے وراثت وغیرہ سے بھی تنازل کرسکتی ہے ، اگربیوی عقل مند ہے تو اس چيز پر اس کے خاوند کواعتراض کا کوئ حق نہیں پہنچتا ۔
اورنہ ہی اس کا خاوند بیوی کےمال میں اس کی رضا اورخوشی کے بغیر کوئ تصرف کرسکتا ہے ۔ فتاوی المراۃ المسلمۃ ( 2 / 674 )
واللہ اعلم .