الحمد للہ.
اگر اولاد ميں والدين پر خرچ كرنے كى استطاعت ہو تو تنگ دست و محتاج والدين كا خرچ بيٹے اور بيٹيوں پر واجب ہوگا وہ انہيں كفائت كے مطابق خرچہ دينے كے ذمہ دار ہونگے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور تيرے پروردگار كا فيصلہ ہے كہ اس كے علاوہ كسى دوسرے كى عبادت نہ كى جائے، اور والدين كے ساتھ حسن سلوك كيا جائے الاسراء ( 23 ).
ضرورت كے وقت والدين پر خرچ كرنا بھى والدين كے ساتھ حسن سلوك ميں شامل ہوتا ہے.
ابن منذر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اہل علم كا اجماع ہے كہ جو والدين محتاج و ضرورتمند ہوں اور كمائى نہ كرتے ہوں اور ان كى آمدنى نہ ہو اور نہ ہى ان كے پاس مال ہو تو بيٹے كے ذمہ ان كا خرچ واجب ہوگا " اھـ
آپ كے بھائيوں كى موجودگى آپ كے ليے اپنے والدين كے نفقہ كے وجوب ميں مانع نہيں، كيونكہ آپ كے بيان كے مطابق والدين پر خرچ كرنے كى استطاعت نہيں ركھتے "
ديكھيں: المغنى ( 11 / 375 - 376 ).
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" مالدار بيٹے پر واجب ہے كہ وہ اپنے تنگ دست والد اور اس كى بيوى اور چھوٹے بھائيوں پر خرچ كرے " اھـ
ديكھيں: الاختيارات ( 487 ).
اس بنا پر آپ كے خاوند كا قول صحيح نہيں كہ والدين كا خرچ آپ كے بھائيوں كى ذمہ دارى ہے.
اگر آپ كا اپنے والدين پر خرچ كرنا واجب ہے تو آپ كے ليے اس سلسلہ ميں اپنے خاوند كى اطاعت كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اللہ سبحانہ و تعالى كى معصيت و نافرمانى ميں كسى دوسرے كى اطاعت نہيں؛ بلكہ اطاعت تو نيكى ميں ہوتى ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4340 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1840 ).
اس كے ساتھ ساتھ آپ كو چاہيے كہ آپ اپنے خاوند كے ساتھ اس سلسلہ ميں نرم رويہ اختيار كرتے ہوئے اسے ايسا كرنے پر راضى كرنے كى كوشش كريں، اور اسے يہ سمجھائيں كہ يہ تو اللہ سبحانہ و تعالى كا حكم ہے اور اس نے آپ پر فرض كر ركھا ہے، اور خاوند كو بھى چاہيے كہ وہ والدين كے ساتھ حسن سلوك اور نيكى كرنے ميں آپ كى معاونت كرے.
واللہ اعلم .