جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

مسلمان لڑكى عيسائى لڑكے سے محبت كرتى اور اس سے شادى كرنا چاہتى ہے

سوال

ميں بيس سالہ مسلمان لڑكى ہوں اور ايك عيسائى شخص سے محبت كرتى ہوں جو عربى نہيں جانتا.. اگر مجھے اپنے دين كا كوئى خدشہ نہ ہو اور مجھے يقين ہے كہ وہ ميرے اسلام پر كوئى اثرانداز نہيں ہو گا تو كيا ميرے ليے اس عيسائى شخص سے شادى كرنا جائز ہے ؟
اور اگر جواب نفى ميں ہو تو ميں شخص كو اسلام كى دعوت كس طرح دوں، اور كيا آپ كے ہاں كوئى دعوت دين دينے كے ليے كميٹى ہے جو اس شخص كو دين اسلام كى دعوت دے تا كہ ميں اسے بتاؤں كہ وہ اس كميٹى ميں شامل ہو جائے اور آپ سے رابطہ كرے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مسلمانوں كا اجماع و اتفاق ہے كہ كسى بھى مسلمان عورت كے ليے كسى كافر چاہے وہ يہودى ہو يا عيسائى يا كسى اور كفريہ دين سے تعلق ركھتا ہو شادى كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

] اور شرك كرنے والے مردوں كے نكاح ميں اپنى عورتيں مت دو حتى كہ ايمان لے آئيں، ايماندار غلام آزاد مشرك سے بہتر ہے گو مشرك تمہيں اچھا ہى كيوں نہ لگے، يہ لوگ آگ كى طرف بلا رہے ہيں، اور اللہ تعالى جنت اور بخشش كى طرف بلاتا ہے، اور اپنى آيات لوگوں كے ليے بيان كرتا ہے تا كہ وہ نصيحت حاصل كريں [البقرۃ ( 221 ).

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى اس طرح ہے:

] اگر تمہيں علم ہو جائے كہ وہ مومن عورتيں ہيں تو تم انہيں كافروں كى طرف واپس مت كرو، نہ تو وہ عورتيں ان كافروں كے ليے حلال ہيں، اور نہ ہى وہ كافر مرد ان مومن عورتوں كے ليے حلال ہيں [الممتحنۃ ( 10 ).

شيخ الاسلام رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" مسلمانوں كا اس پر اتفاق ہے كہ كافر كسى مسلمان شخص كا وارث نہيں بن سكتا، اور نہ ہى كافر كسى مسلمان عورت سے شادى كر سكتا ہے " انتہى

ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 3 / 130 ).

اور اس ليے بھى كہ اسلام بلند ہونے كے ليے آيا ہے، تنزلى كے ليے نہيں جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اسلام سب سے اوپر ہے، اور اس پر كوئى دين اوپر نہيں ہو سكتا "

اسے دار قطنى نےروايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صيح الجامع حديث نمبر ( 2778 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

اور پھر مرد كو عورت پر برترى اور سردارى حاصل ہے، اس ليے كسى كافر كو كسى مسلمان عورت پر سردارى و برترى حاصل كرنا جائز نہيں، اور اس ليے بھى كہ دين اسلام دين حق ہے اور اس كے علاوہ باقى سب اديان باطل ہيں.

اور پھر جب مسلمان عورت كسى كافر مرد سے شادى كرے اور اسے اس كا حكم معلوم ہو كہ كافر مرد سے شادى كرنا جائز نہيں تو وہ زانى عورت كہلائيگى اس كى سزا زنا كى حد ہے، اور اگر وہ اس حكم سے جاہل ہے تو وہ معذور ہو گى، اور فورى طور پر ان كے درميان جدائى اور عليحدگى كرائى جائيگى اور اس ميں طلاق كى كوئى ضرورت ہى نہيں، كيونكہ نكاح ہى باطل تھا.

اس بنا پر اس عورت پر واجب اور ضرورى ہے جس كو اللہ نے دين اسلام كى نعمت سے نوازا ہے اور اس كو ولى كو بھى چاہيے كہ وہ اس سے اجتناب كرے، اور اللہ سبحانہ و تعالى كى حدود كو پامال مت كرے بلكہ ان پر عمل كرے، اور دين اسلام كو عزت سمجھے اور اسے عزيز جانے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

] جو كوئى عزت چاہتا ہے تو اللہ كے ليے ہى سارى عزت ہے [.

اور ہم اس عورت كو نصيحت كرتے ہيں كہ وہ فورى طور پر اس عيسائى مرد سے تعلق ختم كر دے، كيونكہ كسى مسلمان عورت كے ليے جائز نہيں كہ وہ كسى اجنبى شخص سے تعلق ركھے چاہے وہ مسلمان ہو يا كافر، اس كا تفصيلى بيان سوال نمبر ( 23349 ) كے جواب ميں گزر چكا ہے آپ اس كا مطالعہ ضرور كريں.

اور اگر وہ اپنى خوشى و رضا كے ساتھ دين اسلام كو اختيار كر كے مسلمان ہو جائے تو اس سے شادى كرنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اس ميں بھى شرط يہ ہے كہ عورت كا ولى اس پر موافق ہو.

ہم لڑكى نصيحت كرتے ہوئے كہتے ہيں كہ وہ بھى اپنے ليے ايسا شخص اختيار كرے جس كے متعلق رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے كہ: وہ دين اور اخلاق والا ہو.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ اس عورت كے معاملات كو درست كرے، اور اسے رشد و ہدايت سے نوازے.

مزيد اہميت كى خاطر سوال نمبر ( 83736 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب