الحمد للہ.
اللہ سبحانہ و تعالى كے ناموں ميں ايك نام " الحكيم " بھى ہے جس كا معنى حكمت والا ہے، اور اس پر ہم ايمان ركھتے ہيں، ہمارے خيال ميں كوئى بھى ايسا نہيں كہ جو يہ اعتقاد ركھے كہ اس كا كوئى پروردگار ہے اور پھر اس ميں شك ركھتا ہو، اور جب فرشتوں كو اللہ سبحانہ و تعالى نے آدم عليہ السلام كے سامنے سجدہ كرنے كا حكم ديا اور انہيں اس كى حكمت كا علم نہ ہوا تو انہوں نے بھى اسى نام كے ساتھ اللہ سبحانہ و تعالى كى حمد و ثنا كى تھى وہ كہنے لگے:
انہوں نے كہا اے اللہ تو پاك ہے، ہميں تو اتنا ہى علم ہے جتنا تو نے ہميں سكھايا ہے، يقينا تو ہى علم والا اور حكمت والا ہے البقرۃ ( 32 ).
اور اس سے اللہ سبحانہ و تعالى نے بھى اپنے ليے اور فرشتوں نے اور اہل علم نے اس كے ليے گواہى دى كہ:
اللہ تعالى اور فرشتے اور اہل علم اس كى گواہى ديتے ہيں كہ اللہ كے سوا كوئى معبود نہيں، اور وہ عدل كو قائم ركھنے والا ہے، اس غالب اور حكمت والے كے علاوہ كوئى عبادت كے لائق نہيں آل عمران ( 18 ).
اور اسى كے ساتھ اللہ سبحانہ و تعالى كى اپنى مخلوق پر حجت اور دليل قائم ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
كہہ ديجئے كہ بس پورى حجت اللہ ہى كى رہى پھر اگر وہ چاہتا تو تم سب كو راہ راست پر لے آتا الانعام ( 149 ).
اور يہ معلوم ہے كہ الحكيم يعنى حكمت والا رب العالمين كوئى بھى كام فضول نہيں كرتا جس كا كوئى فائدہ نہ ہو، اور نہ ہى وہ كسى چيز كو اس كى جگہ كے علاوہ كہيں اور ركھتا ہے، اور نہ ہى وہ اپنى مخلوق كے ليے كوئى حكم كرتا ہے جو ان كے ليے بہتر نہ ہو، بلكہ وہ اپنى مخلوق پر احسان كرتا ہے جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اللہ تعالى نے بہترين كلام نازل فرمايا ہے جو ايسى كتاب ہے كہ آپس ميں ملتى جلتى ہے اور بار بار دہرائى ہوئى آيتوں كى ہے جس سے ان كے رونگٹے كھڑے ہو جاتے ہيں، جو اپنے رب كا خوف ركھتے ہيں، پھر آخر ميں ان كے جسم اور دل اللہ تعالى كے ذكر كى طرف نرم ہو جاتے ہيں، يہ اللہ تعالى كى ہدايت جس كے ذريعہ جسے چاہے راہ راست پر لگا ديتا ہے، اور جسے اللہ ہى راہ بھلا دے اس كا كوئى ہادى نہيں الزمر ( 23 ).
جس طرح اللہ سبحانہ و تعالى كے نام " الحكيم " مقتضى ہے تو اسى طرح اس كا بھى متقاضى ہے كہ وہ مخلوق بنانے ميں بھى منفرد ہے اس كے ساتھ كوئى شريك نہيں، يہ منطقى بات ہے كہ جو كسى چيز كو بناتا ہے تو وہ اس بات كو زيادہ جانتا ہے كہ اس كے ليے كيا چيز بہتر ہے اور كونسى چيز اس كے لائق ہے، تو پھر جو خالق اور عليم ہے جس نے يہ سارى مخلوق بنائى ہے اس كے متعلق بھى يہى ہے كہ وہ ہر كے متعلق علم ركھتا ہے كہ اس كے مناسب كيا ہے اور كيا مناسب نہيں:
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
كيا وہى نہيں جانتا جس نے پيدا كيا ہے پھر وہ تو باريك بين اور باخبر بھى ہے الملك ( 14 ).
اور رہا يہ مسئلہ جس كى حكمت كے متعلق آپ دريافت كر رہى ہيں اميد ہے كہ آپ كو يہ علم ہے كہ دين اسلام ہى وہ آخرى دين ہے جو اللہ سبحانہ و تعالى كى جانب سے نازل كردہ ہے، اسى ليے اس كے علاوہ جتنے اديان بھى ہيں وہ سب منسوخ ہو چكے ہيں جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
وہى ہے جس نے اپنے رسول كو ہدايت اور سچے دين كے ساتھ بھيجا تا كہ اسے دوسرے تمام مذاہب پر غالب كر دے چاہے مشرك اسے برا ہى جانيں التوبۃ ( 33 ).
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى اس طرح ہے:
اور اللہ سبحانہ و تعالى كافروں كو مومنوں پر ہرگز كوئى راہ نہ ديگا النساء ( 141 ).
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اسلام بلند اور غالب ہے اس پر كوئى اور غالب نہيں ہو سكتا "
اسے دارقطنى وغيرہ نے روايت كيا ہے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 2778 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
اور پھر يہ سب كو معلوم ہے كہ خاوند كو بيوى پر برترى اور درجہ اور سلطہ حاصل ہے، اور خاندان ميں خاوند كا مقام بيوى كے مقام سے اعلى اور برتر ہوتا ہے، ہو سكتا ہے يہ برترى اس كا باعث بنے كہ خاوند اپنى بيوى كو اپنا دين ترك كرنے پر مجبور كر كے اپنے دين كى اتباع كرنے كا كہے، يا پھر وہ اس كى چاہت كرتے ہوئے اس پر اثرانداز ہو، اور دين اسلام ايسا نہيں چاہتا كہ دين اسلام كو چھوڑ كر كوئى اور دين اختيار كيا جائے كيونكہ باقى سب اديان منسوخ ہو چكے ہيں.
اور پھر خاوند كى يہ برترى اور بلند درجہ اس كى بيوى كى اولاد پر اثر انداز ہو سكتا ہے كہ وہ اپنے باپ كے دين كى اتباع كرنے لگيں جو كہ اس اولاد پر ايك عظيم جرم ہو گا كہ وہ اللہ كے آخرى دين دين اسلام كے علاوہ كسى اور دين كى طرف چل نكلے گى.
اللہ سبحانہ و تعالى نے اسى حكمت كو مسلمان عورت كا كسى غير مسلم سے شادى كرنے كے سياق ميں ذكر كرتے ہوئے فرمايا ہے:
اور شرك كرنے والے مردوں كے نكاح ميں اپنى عورتيں مت دو حتى كہ ايمان لے آئيں، ايماندار غلام آزاد مشرك سے بہتر ہے گو مشرك تمہيں اچھا ہى كيوں نہ لگے، يہ لوگ آگ كى طرف بلا رہے ہيں، اور اللہ تعالى جنت اور بخشش كى طرف بلاتا ہے، اور اپنى آيات لوگوں كے ليے بيان كرتا ہے تا كہ وہ نصيحت حاصل كريں البقرۃ ( 221 ).
پھر جب اہل كتاب ميں سے يہودى يا عيسائى عورت كسى مسلمان شخص سے شادى كريگى تو وہ ايك ايسے شخص سے شادى كر رہى ہے جو اس كے نبى پر بھى ايمان ركھتا ہے، بلكہ وہ شخص تو سارے انبياء پر ايمان ركھتا ہے، اور اس وقت تك كوئى شخص تو مسلمان ہى نہيں ہو سكتا جب تك وہ باقى سب انبياء پر ايمان نہ لائے، اور اس كے ليے كسى بھى نبى ميں فرق كرنا حلال نہيں ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
رسول اس چيز پر ايمان لايا جو اس كى جانب اس كے پروردگار كى جانب سے نازل ہوئى، اور مومن بھى ايمان لائے، يہ سب اللہ تعالى اور اس كے فرشتوں اور اس كى كتابوں اور اس كے رسولوں پر ايمان لائے، اس كے رسولوں ميں سے كسى ميں ہم تفريق نہيں كرتے البقرۃ ( 285 ).
ليكن اس كے مقابلہ ميں كتابى شخص ـ يعنى يہودى يا عيسائى ـ محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر ايمان نہيں ركھتا كہ وہ آخرى نبى اور خاتم الانبياء ہيں، تو پھر دونوں معاملے برابر كس طرح ہو سكتے ہيں كہ مسلمانوں كى عورتيں كسى ايسے شخص كے پاس ہوں جو اس عورت كے نبى كے ساتھ كفر كرتا ہو اور اس پر ايمان نہ ركھے ؟!
يہاں ہم ايك تنبيہ كرنا چاہتے ہيں كہ باوجود اس كے كہ مسلمان شخص كا اہل كتاب يعنى يہودى يا عيسائى عورت سے نكاح كرنا شريعت ميں جائز اور مباح ہے كيونكہ اس كے پيچھے ايك مصلحت كارفرما اور پوشيدہ ہے اور اس ميں بندوں پر جو تخفيف پائى جاتى ہے، ليكن اس كے ساتھ ساتھ يہ بھارى اور مذموم كام ہے، جيسا كہ امام مالك رحمہ اللہ كہا كرتے تھے.
ديكھيں: تفسير القرطبى ( 3 / 67 ).
اس كے بعد: يہ اہل كتاب كے ليے ايك بہت ہى اچھى اور سوچنے والى دعوت ہے شايد وہ اسلام كى طرف متنبہ ہوں كہ دين اسلام نے باقى كفار كو چھوڑ كر خاص كر يہوديوں اور عيسائيوں كے ليے بعض احكام ميں انہيں مستثنى قرار ديا ہے.
چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالى نے مباح كيا ہے كہ ہم اہل كتاب كا ذبح كردہ كھا ليں، اور اسى طرح ہمارے ليے اہل كتاب كى عورتوں سے نكاح كرنا بھى مباح كيا ہے، يہ اصل ميں ان كے دين كى قدر ہے جو توحيد والا دين تھا، اور ان كے رسولوں كى عزت و اكرام ہے جن پر ہميں ايمان لانے اور ان كى تعظيم كرنے كا حكم ديا گيا ہے.
ديكھنا چاہيے كہ ان يہوديوں اور عيسائيوں كا ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ہمارا ان كے دين اور ان كے انبياء كے متعلق موقف كيا ہے.
اور آخر ميں ہم يہ عرض كرينگے كہ: يہ حكم دوسرے اديان پر كوئى غريب اور اچھنبا نہيں، اور نہ ہى شاذ ہے جو صرف اكيلا دين اسلام ميں پايا جاتا ہے، ہمارے دين پر اعتراض اور طعن كرنے والے كہ دين اسلام نے اپنى عورتوں كو دوسرے دين كے افراد سے شادى كرنے سے منع كيا ہے يہ كيوں نہيں سوچتے اور غور كرتے كہ وہ تو آپس ميں ايك دوسرے كے ساتھ شادى نہيں كرتے حالانكہ ان كا دين بھى ايك ہے؟!
ديكھيں كيتھولك عيسائى فرقہ كا شخص كسى پروٹسنٹ عيسائى كى عورت كے ساتھ شادى نہيں كر سكتا، اور اگر وہ اس كى جرات كرتا ہے تو اسے چرچ كى جانب سے سزا دى جاتى ہے اور اسى طرح اس كے برعكس اگر كوئى پروٹسنٹ عيسائى كسى كيتھولك عورت سے شادى كرتا ہے تو اسے بھى سزا دى جاتى ہے !!!
اور مصرى ارتھوڈكس قبطى قانون جو ( 1938 ) ميلادى ميں جارى ہوا كى شق نمبر چھ ميں لكھا ہے كہ:
" دين كا اختلاف شادى ميں مانع ہے "
واللہ اعلم .