الحمد للہ.
اللہ تعالی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے عقل سے بھی نوازا، اور اسی انسان کے لیے وحی نازل کی، اسی کی طرف رسولوں کو بھیجا، اور انسان کو حق کی دعوت دی، باطل سے خبردار کیا، اور پھر اسے مکمل اختیار دیا کہ وہ جو چاہے راستہ اپنائے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ
ترجمہ: اور کہہ دو: حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، اب جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے کفر کرے۔ [الكهف: 29]
اللہ تعالی نے اپنے رسول جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم دیا کہ سب لوگوں کے لیے حق بیان کر دیں، پھر تمام لوگوں کو حق حاصل ہے کہ اپنی مرضی سے راستہ اپنائیں، چنانچہ جس نے اطاعت کی اس نے اپنا فائدہ کیا اور جس نے نافرمانی کی تو اس نے اپنا ہی نقصان کیا، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
قُلْ يَاأَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا وَمَا أَنَا عَلَيْكُمْ بِوَكِيلٍ
ترجمہ: کہہ دو: اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق آ گیا ہے، پس جو ہدایت اپنائے تو وہ اپنے لیے ہدایت اپناتا ہے، اور جو گمراہ ہو گا تو اپنی جان کو ہی گمراہ کرتا ہے، اور میں تمہاری بگڑی حالت سنوارنے والا نہیں ہوں۔ [يونس: 108]
دین اسلام ، فطری اور عقل و فکر کے عین مطابق دین ہے، اللہ تعالی نے حق و باطل کو بھی واضح فرما دیا ہے، چنانچہ تمام خیر کے کام کرنے کا حکم دیا اور ہر قسم کے شر سے خبردار کیا ہے، پاکیزہ چیزیں حلال قرار دی ہیں اور خبیث چیزیں حرام قرار دی ہیں، اور دین قبول کرنے میں کوئی زبردستی نہیں ہے؛ کیونکہ دین قبول کرنے میں مخلوق کا ہی فائدہ ہے خالق کا کوئی فائدہ نہیں ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَهَا وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
ترجمہ: دین میں داخل ہونے کے لیے کسی پر کوئی زبردستی نہیں ہے، بھلائی اور سرکشی دونوں واضح ہو چکی ہیں، پس اب جو بھی طاغوت کے ساتھ کفر کرے، اور اللہ تعالی پر ایمان لائے تو اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا ہے جو کہ ٹوٹنے والا نہیں ہے، اور اللہ تعالی سننے والا اور جاننے والا ہے۔[البقرة: 256]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ
ترجمہ: جو بھی نیکی کرے گا تو وہ اپنے لیے کرے گا، اور جو بدی کرے گا تو اس کا خمیازہ اسی پر ہو گا، اور تیرا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔[فصلت: 46]
ہدایت اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے، اگر اللہ تعالی چاہے تو سب لوگوں کو زبردستی ہدایت دے دے؛ کیونکہ اللہ تعالی کو پوری دھرتی اور آسمان میں کوئی بھی چیز روک نہیں سکتی، بلکہ اللہ تعالی کی بادشاہت میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ اسی کے اذن سے ہوتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
قُلْ فَلِلَّهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ فَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ
ترجمہ: کہہ دیں: کامل دلیل تو اللہ تعالی کے پاس ہی ہے، اگر وہ چاہتا تو تم سب کو زبردستی ہدایت دے دیتا۔ [الأنعام: 149]
لیکن اللہ تعالی کی حکمت کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں مکمل با اختیار رکھا ہے، اللہ تعالی نے ہمیں ہدایت اور فرقان یعنی قرآن مجید دیا، اب جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے تو وہ جنت میں چلا جائے گا، اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ جہنم میں جائے گا، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
قَدْ جَاءَكُمْ بَصَائِرُ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا وَمَا أَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيظٍ
ترجمہ: یقیناً تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے بصیرت بھری باتیں آ گئی ہیں، تو جو کوئی ان سے بصیرت حاصل کرے گا تو وہ اپنے لیے کرے گا، اور جو کوئی اندھا ہو جائے تو اس کا خمیازہ اسی پر ہو گا، اور میں تم پر کوئی نگران نہیں ہوں۔[الأنعام: 104]
لہذا ہدایت دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ میں نہیں ہے، تاہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور دیگر مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ ہدایت واضح کریں، اور ایمان لانے کے لیے کسی کو مجبور نہ کریں، جیسے کہ اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرمایا:
وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَنْ فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا أَفَأَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ
ترجمہ: اور اگر تیرا رب چاہتا تو زمین میں موجود سب کے سب لوگ ایمان لے آتے، تو کیا آپ لوگوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ایمان لے آئیں!؟ [يونس: 99]
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذمہ داری بیان کرتے ہوئے فرمایا:
وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ
ترجمہ: رسول کی ذمہ داری صرف واضح انداز میں تبلیغ کرنا ہے۔[العنكبوت: 18]
حق پر عمل کی ہدایت صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے، کسی بھی بشر کے لیے اس میں تھوڑا سا بھی حصہ نہیں ہے، جیسے کہ اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو مخاطب کر کے فرمایا:
إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ
ترجمہ: یقیناً آپ جس کو چاہیں حق پر عمل کی ہدایت نہیں دے سکتے، لیکن اللہ تعالی جیسے چاہتا ہے حق پر عمل کی ہدایت دیتا ہے۔[القصص: 56]
چنانچہ اللہ تعالی جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ رکھتا ہے، تاہم اللہ تعالی نے اتنا بتلا دیا ہے کہ جو اللہ تعالی کی اطاعت کرے اور اللہ تعالی کی جانب راغب رہے اللہ تعالی اسی کو ہدایت دیتا ہے، چنانچہ فرمایا:
وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْوَاهُمْ
ترجمہ: اور جو لوگ راہ ہدایت اپناتے ہیں، اللہ تعالی انہیں مزید ہدایت دیتا ہے اور انہیں تقوی عنایت فرماتا ہے۔[محمد: 17]
لیکن جو شخص اللہ تعالی کی نافرمانی کرے، اللہ تعالی سے روگرداں رہے، تو اللہ تعالی اسے ہدایت نہیں دیتا جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ
ترجمہ: یقیناً اللہ تعالی جھوٹے کافر کو ہدایت نہیں دیتا۔[الزمر: 3]
اللہ تعالی کو ماضی میں گزری ہوئی، حال میں جو ہو رہی ہے اور جو مستقبل میں ہونے والی ہے ہر چیز کا علم ہے، لہذا اللہ تعالی کو تو تمام اہل ایمان اور کفر کا اور ان کے اعمال تک کا علم ہے، آخرت میں ان کے انجام کا بھی علم ہے، یہ سب چیزیں اللہ تعالی نے لوح محفوظ میں لکھ دی ہیں، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ كِتَابًا
ترجمہ: اور ہم نے ہر چیز کو لکھ کر محفوظ کیا ہوا ہے۔[النبأ: 29]
دوسری جانب اللہ تعالی نے انسان کو مکمل اختیار دیا ہے، چنانچہ انسان پیدائشی طور پر ایمان و کفر دونوں میں سے کسی کو بھی اپنا سکتا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا
ترجمہ: یقیناً ہم نے انسان کی سیدھے راستے کی جانب رہنمائی کر دی ہے، اب چاہے تو وہ شکر گزار بنے اور چاہے تو نا شکرا بن جائے۔[الإنسان: 3]
تاہم انسان کو عقل کے دائرے میں رہتے ہوئے اختیار ہوتا ہے، لہذا جب انسان کے پاس عقل ہی نہ رہے کہ خیر و شر ، حق و باطل میں تفریق نہ کر سکے تو وہ مکلف نہیں رہتا، اسی لیے شریعت اسلامیہ میں مجنون شخص مرفوع القلم ہوتا ہے، یہاں تا کہ اسے افاقہ ہو جائے، اسی طرح بچہ بھی مرفوع القلم ہوتا ہے یہاں تک کہ چیزوں کو سمجھنے لگے، اور ایسے ہی سویا ہوا شخص بھی مرفوع القلم ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائے، چنانچہ ان تینوں میں سے کوئی بھی عقل نہ ہونے کی وجہ سے مکلف نہیں ہوتا، اس لیے جب یہ ایمان و کفر، حق و باطل میں عقل کے ذریعے فرق کرنے لگے تو پھر مکلف ہو گا۔
انسان جس جانب بھی جائے چاہے ثواب کا کام ہو یا عقاب کا؛ اسے اختیار ہے، لیکن اطاعت کرنے کی صورت میں جنت ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا
ترجمہ: اپنی جان کا تزکیہ کرنے والا شخص کامیاب ہو گیا۔ [الشمس: 9]
اور اگر اللہ کی نافرمانی کرے تو اس کے لیے جہنم ہے:
وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا
ترجمہ: اپنی جان کو خاک میں ملانے والا شخص نقصان میں چلا گیا۔ [الشمس: 10]
کسی ایک راستے کو اپنانے پر ہی رب العالمین کے ہاں حساب ہو گا، تو اس مکمل تفصیل سے معلوم ہوا کہ ایمان و کفر، اطاعت و معصیت بندے کے اختیار میں ہیں، اللہ تعالی کی جانب سے ثواب اور عقاب اسی اختیار کی وجہ سے ملے گا، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ
ترجمہ: جو بھی نیکی کرے گا تو وہ اپنے لیے کرے گا، اور جو بدی کرے گا تو اس کا خمیازہ اسی پر ہو گا، اور تیرا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔ [فصلت: 46]
چنانچہ اگر کوئی شخص اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کرتا ہے، دنیا و آخرت کی کامیابی لینا چاہتا ہے تو وہ اسلام میں داخل ہو جائے۔ اور جو اس سے بے رغبتی اختیار کرتا ہے ، اور آخرت کو چھوڑ کر دنیا پر راضی ہوتے ہوئے اسلام قبول نہیں کرتا، تو اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔ لہذا فائدہ ہو یا نقصان ہر دو انسان کے لیے ہی ہیں، ان دونوں میں سے کسی کو اپنانے کے لیے کوئی زور زبردستی نہیں ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّ هَذِهِ تَذْكِرَةٌ فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ إِلَى رَبِّهِ سَبِيلًا
ترجمہ: یقیناً یہ واضح نصیحت ہے، پس اب جو چاہے وہ اپنے رب کی جانب راستہ اپنائے۔[الإنسان: 29]
واللہ اعلم