الحمد للہ.
اگر عورت كا ظن غالب ہو كہ اس كا حيض ختم ہو كر طہر شروع ہو گيا ہے اور اس كى علامات بھى ظاہر ہو گئى ہوں تو وہ غسل كر كے نماز ادا كرے لے اور اس كا خاوند اس سے جماع كر لے تو اس ميں ان پر كوئى گناہ نہيں كيونكہ اس نے وہى كام كيا ہے جو اس كے ليے مباح تھا، جبكہ حالت حيض ميں اس كے ليے جماع كرنا حرام تھا.
اور جب اسے دوبارہ حيض شروع ہو جائے تو وہ حائضہ شمار ہوگى اور اس كے ليے نماز كى ادائيگى حرام ہو گى، اور نہ ہى اس كا خاوند اس سے جماع كر سكتا ہے، كيونكہ جب بھى حيض كا خون آ جائے اس كا حكم بھى ثابت ہوگا حيض كے خون كى علامات عورتوں ميں معروف ہيں.
اس ليے عورت كو غسل كرنے اور نماز كى ادائيگى ميں جلد بازى سے كام نہيں لينا چاہيے حتى كہ وہ طہر كى علامت سفيد مادہ نہ ديكھ لے، يا پھر جسے سفيد مادہ نہ آتا ہو اسے خون بالكل آنا بند اور خشك ہو جائے، خون كا ركنا طہر نہيں، بلكہ طہر كى علامت ديكھنا اور اس عادتا مدت كا ختم ہونا طہر ہو گا.
واللہ اعلم .