ہفتہ 20 جمادی ثانیہ 1446 - 21 دسمبر 2024
اردو

قرض اور بیع میں فرق

سوال

میں نے اپنی کسی بہن سے قرض حسنہ کے طور پر تھوڑا سا سونا لیا، اور ان سے وعدہ ہوا کہ انہیں اتنی ہی مقدار میں سونا معینہ مدت کے اندر لوٹا دیا جائے گا، ہم آپ سے امید کرتے ہیں کہ آپ ہمیں بتلائیں کہ یہ سود ہے؟ جزاکم اللہ خیرا

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بہت سی احادیث میں یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سود کی اقسام اور نوعتیں ذکر فرمائیں ہیں، مثلاً: سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (سونا، سونے کے عوض۔ چاندی ، چاندی کے عوض۔ گندم ، گندم کے عوض۔ جو، جو کے عوض۔ کھجور ، کھجور کے عوض، اور نمک ، نمک کے عوض فروخت ہو تو ہم وزن اور برابر برابر ہو، نیز نقد و نقد ہو، تاہم اگر ان چیزوں کی ایک دوسرے سے بیع ہو تو نقد و نقد ہونے کی صورت میں جیسے مرضی کم زیادہ کر لو) مسلم: (1587)

دوم:

مسلمانوں کا اجماع ہے کہ قرض لینا جائز ہے، بلکہ اس کی ترغیب بھی دی گئی ہے ، چاہے قرض لی ہوئی چیز سابقہ حدیث میں مذکور ربوی اشیا میں سے ہو یا کسی اور چیز سے ہو۔

جیسے کہ ابن قطان رحمہ اللہ " الإقناع في مسائل الإجماع" (ص197) میں کہتے ہیں:
"وہ تمام اہل علم جن سے علم حاصل کیا گیا ہے سب کا اجماع ہے کہ دینار، درہم، گندم، جو، کھجور اور سونا سمیت ہر وہ اناج جسے ناپا یا تولا جاتا ہے اسے قرض میں لینا جائز ہے۔" ختم شد

سوم:

سائل کو سونا قرض میں لینے پر اشکال اس لیے پیدا ہوا کہ سونا ربوی اشیا میں شامل ہے، اور قرض میں سونا اب لے کر بعد میں دیا جائے گا جو کہ نقد و نقد نہیں ہے!

اس اشکال کا کئی طرح سے جواب دیا جا سکتا ہے:

پہلا جواب:

نصوص شریعت میں نقد و نقد قبضے میں لینے کا حکم صرف بیع میں ہے؛ جیسے کہ حدیث کے الفاظ ہیں کہ: فَبِيْعُوْا كَيْفَ شِئْتُمْ یعنی "تم جیسے مرضی بیع کرو"، یہاں پر قرض کا ذکر نہیں ہے۔

دوسرا جواب:
قرض میں دوسرے فریق کی بھلائی، خیر خواہی، اور نیکی مقصود ہوتی ہے، جبکہ بیع میں مال کو عوض کے بدلے دوسرے کے سپرد کرنا ہوتا ہے اور اس میں واپسی نہیں ہوتی۔

جیسے کہ ابن قیم رحمہ اللہ "إعلام الموقعين عن رب العالمين" (2/11)کہتے ہیں:
"قرض کے متعلق جس نے کہا ہے کہ یہ خلاف قیاس ہے، اُسے اصل میں شبہ یہ لگا ہے کہ قرض میں بھی ربوی اشیا کی بیع ہوتی ہے، حالانکہ یہ غلط ہے؛ کیونکہ قرض کا تعلق عقد تبرع سے ہے جیسے کہ کسی کو کوئی چیز استعمال کے لیے عاریتاً دی جاتی ہے، اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے "منيحة" قرار دیا ہے جو کہ عاریتاً دی گئی چیز پر بولا جاتا ہے، حدیث مبارکہ ہے: أو منيحة ذهب أو منيحة ورق یعنی "سونے یا چاندی کا عاریتاً تحفہ" قرض دوسرے کی ضرورت پورا کرنے کے لیے ہوتا ہے معاوضہ لینے کے لیے نہیں، کیونکہ معاوضہ لینے کی صورت میں ہر کوئی اپنی طرف سے چیز دوسرے کو ہمیشہ کے لیے دیتا ہے واپس لینے کے لیے نہیں دیتا، چنانچہ قرض عاریتاً اور باہمی تعاون پر مبنی ہوتا ہے ۔۔۔ چنانچہ اس کا تعلق بیع سے نہیں ہے بلکہ تبرع، تعاون اور باہمی خدا ترسی سے ہے۔" ختم شد

ایسے ہی شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ الشرح الممتع على زاد المستقنع (9/93) میں کہتے ہیں:
"قرض میں اصل محرک باہمی نیکی اور تعاون ہوتا ہے کہ قرض دینے والا مقروض شخص کو اپنی چیز کا مالک بناتا ہے۔۔۔ اس لیے قرض کا مقصد نفع یا معاوضہ لینا نہیں ہوتا بلکہ یہاں محض دوسرے کا بھلا مقصود ہوتا ہے، اسی لیے قرض دینا جائز ہے حالانکہ اس کی شکل ادھار کے سود والی [ربا النسيئة] ہی ہے؛ کیونکہ اگر کوئی شخص ایک درہم کو ایک ہی درہم کے عوض ادھار فروخت کرے تو یہ عین سود ہے، لیکن اگر یہی ایک درہم اسے قرض دے دے تو یہ سود نہ ہو گا؛ حالانکہ صورت تو ایک ہی ہے، صرف نیت کا فرق ہے؛ لہذا جب قرض کا مقصد دوسرے کی بھلائی ، اور احسان ہے تو اس لیے یہ جائز ہے۔" ختم شد

تیسرا جواب:
یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ لوگ ہمیشہ سے ایک دوسرے سے نقدی، درہم و دینار اور دیگر استعمال کی چیزیں جو، اور اونٹ وغیرہ ادھار لیتے رہتے ہیں ۔۔۔ اور پھر اتنی ہی مقدار میں واپس کر دیتے ہیں اور یہ لین دین عہد نبوت سے لے کر اب تک جاری ہے، کوئی بھی اسے سود نہیں کہتا ہے۔ جیسے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک یہودی سے ادھار اناج [یعنی جو] لیا اور اپنی لوہے کی ذرہ گروی رکھوائی۔ اس حدیث کو امام بخاری: (2251) اور مسلم : (1603) نے روایت کیا ہے۔

اور جو کا تعلق ربوی اشیا سے ہے۔

چنانچہ اگر قرض کی صورت میں بھی تقابض کو لازم قرار دے دیا جائے تو تمام ربوی اشیا میں قرض معدوم ہو جائے گا۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب