الحمد للہ.
اول:
خون كى نجاست معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 2570 ) اور ( 2176 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں كيونكہ يہ بہت اہم ہے.
دوم:
بعض علماء كرام كا كہنا ہے كہ زخموں سے خارج ہونے والا خون اگر قليل ہو تو اس سے وضوء نہيں ٹوٹتا، اور اگر زيادہ ہو تو وضوء ٹوٹ جاتا ہے.
ليكن اكثر علماء كى جماعت جن ميں امام شافعى اور فقھاء سبعہ ( يعنى ساتوں فقھاء ) شامل ہيں اور امام احمد كى ايك روايت ميں سبيلين كے علاوہ كہيں سے بھى خارج ہونے والى چيز وضوء توڑنے والى اشياء ميں شامل نہيں، چاہے وہ كم ہو يا زيادہ ليكن پيشاب اور پاخانہ.
انہوں نے درج ذيل دلائل سے استدلال كيا ہے:
1 - اصل ميں وضوء قائم ہے اور ٹوٹا نہيں، اور جو كوئى بھى وضوء ٹوٹنے كا دعوى كرے تو يہ اصل كے خلاف ہے اس ليے اسے اس كى دليل پيش كرنى چاہيے.
2 - اس كى طہارت شرعى دليل كے مقتضى سے ثابت ہے، اور جو چيز شرعى دليل كے مقتضى سے ثابت ہو اسے شرعى دليل كے علاوہ كسى اور چيز سے ختم نہيں كيا جا سكتا.
ہم كتاب و سنت جس پر دلالت كرتا ہے اس سے باہر نہيں جاتے، كيونكہ ہميں اللہ تعالى كى شريعت كى پيروى و اتباع كا حكم ہے، نہ كہ اپنى خواہشات كا، اس ليے ہمارے ليے جائز ہى نہيں كہ ہم اللہ كے بندوں پر وہ طہارت لازم كريں جو ان پر واجب نہيں، اور نہ ہى ان كى واجب طہارت و پاكيزگى كو ختم كر سكتے ہيں. اھـ
ديكھيں: الشرح الممتع ابن عثيمين ( 1 / 224 ).
واللہ اعلم .