ہفتہ 20 جمادی ثانیہ 1446 - 21 دسمبر 2024
اردو

کسی بھی شخص سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کرنا ہم پر کیوں واجب ہے؟

سوال

ہم پر یہ کیوں واجب کیا گیا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ انتہا درجے

کی اطاعت، محبت، اتباع اور احترام اپنائیں؟ یعنی سب سے بڑھ کر آپ کے ساتھ محبت، اطاعت، اتباع اور احترام کریں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

-اللہ تعالی نے ہم پر نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت واجب کی ہے، چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَاحْذَرُوا فَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا عَلَى رَسُولِنَا الْبَلاغُ الْمُبِينُ
 ترجمہ: اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو، نیز متنبہ رہو، پس اگر تم رو گردانی کرو تو جان لو کہ ہمارے رسول کی ذمہ داری صرف واضح تبلیغ ہے۔[المائدۃ: 92]

2-اللہ تعالی نے یہ بھی بتلایا کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت ہی اللہ تعالی کی اطاعت ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ وَمَنْ تَوَلَّى فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظاً
ترجمہ: جو رسول کی اطاعت کرے تو یقیناً اس نے اللہ تعالی کی اطاعت کی، اور جو رو گردانی کرے تو ہم نے آپ کو ان پر نگران بنا کر نہیں بھیجا۔ [النساء: 80]

3-اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت سے بے رخی اختیار کرنے سے خبردار فرمایا، اور یہ قرار دیا کہ اس سے انسان کہیں شرک جیسے فتنے میں مبتلا نہ ہو جائے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُمْ بَعْضاً قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِوَاذاً فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ 
ترجمہ: تم رسول کے بلانے کو ایسا بلاوا نہ بنا لو جیسا کہ تمہارا آپس میں ایک دوسرے کو بلاوا ہے، تم میں سے نظر بچا کر چپکے سے سرک جانے والوں کو اللہ خوب جانتا ہے۔ پس جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ انہیں کوئی فتنہ [شرک] دبوچ لے یا انہیں درد ناک عذاب پہنچ جائے۔ [النور: 63]

نیز یہ بھی بتلایا کہ اللہ تعالی نے جو مقامِ نبوت اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو عطا کیا ہے اس کا مومنوں سے تقاضا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا مکمل احترام کریں اور تعظیم بجا لائیں، چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا * لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلا
ترجمہ: یقیناً ہم نے آپ کو گواہ، خوش خبری دینے والا اور ڈرانے کا بنا کر بھیجا ہے۔ تا کہ تم [مخاطب لوگو] اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی مدد کرو، اس کا احترام کرو اور اللہ تعالی کی صبح و شام تسبیح بیان کرو۔ [الفتح: 8 - 9]

4-کسی بھی مسلمان کا ایمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ محبت کے بغیر مکمل ہی نہیں ہو سکتا، بلکہ اس وقت تک مومن کا ایمان کامل نہیں ہو گا جب تک اس کے نزدیک نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اپنے والد، اپنی اولاد ، خود اپنی ذات اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جائے۔ چنانچہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے ہاں اس کے والد، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔) اس حدیث کو امام بخاری: (15) اور مسلم : (44) نے روایت کیا ہے۔

اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا، اسی اثنا میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! آپ میرے ہاں ہر چیز سے محبوب ہیں، لیکن میری اپنی ذات سے زیادہ نہیں!۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (نہیں! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، جب تک میں تمہیں اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں) تو اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر ایسی بات ہے تو ابھی سے ہی؛ اللہ کی قسم! آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (عمر! اب بات بنی۔) اس حدیث کو بخاری: (6257)نے روایت کیا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کسی بھی شخص سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت اور تعظیم واجب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ دنیا و آخرت کی کوئی بھی خیر ہمیں اگر ملے گی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان اور آپ کی اتباع کے ذریعے؛ کیونکہ اللہ تعالی کے عذاب سے نجات اور اللہ تعالی کی رحمت کا حصول رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے، عذاب سے نجات اور حصولِ رحمت دونوں ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان، آپ سے محبت، اور آپ کی اتباع کی بدولت ہی ممکن ہیں۔ اسی شخص کو اللہ تعالی دنیاوی اور اخروی عذاب سے نجات عطا فرمائے گا جو ایمان کی دولت سے بہرہ ور ہو گا، اور اسی کو اللہ تعالی دنیا و آخرت کی خیر عطا کرے گا۔

تو سب سے عظیم اور مفید ترین نعمت ، ایمان کی نعمت ہے جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات کے بغیر ممکن ہی نہیں؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات ہر شخص کے لیے اس کے جان اور مال سے زیادہ مفید اور خیر خواہ ہے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بدولت اللہ تعالی اس شخص کو اندھیروں سے نور کی طرف نکالتا ہے، نجات کا راستہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات ہی ہیں؛ کیونکہ انسان کی اپنی جان اور اہل خانہ وغیرہ اللہ تعالی کی ذات سے بچانے کے لیے نا کافی ہیں۔۔۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (27/246)

کچھ اہل علم یہ بھی کہتے ہیں کہ: اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بدولت بندے کو کفر کے اندھیروں سے نکال کر ایمان کی روشنی میں لا کھڑا فرمایا؛ تو اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب سے حاصل ہونے والے فوائد پر غور و فکر کرے تو اسے معلوم ہو گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی اس کی سرمدی نعمتوں میں دائمی بقا کے باعث ہیں، اسے یہ بھی معلوم ہو گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے حاصل ہونے والا فائدہ دیگر ہمہ قسم کے فوائد سے زیادہ بڑا ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس بات کے حقدار ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت بھی بقیہ تمام چیزوں سے زیادہ ہو۔ لیکن لوگ اس بات کو ذہن میں اجاگر رکھنے کے بارے میں مختلف درجات رکھتے ہیں کچھ اسے ہر وقت ذہن نشین رکھتے ہیں تو کچھ غافل ہو جاتے ہیں۔ تو جو شخص بھی نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر صحیح ایمان رکھتا ہے وہ ہر حالت میں کچھ نہ کچھ اس ترجیحی محبت کا احساس اپنے دل میں ضرور رکھتا ہے، لیکن سب کے سب لوگ اس محبت میں یکساں نہیں ہیں؛ چنانچہ کچھ لوگوں کو اس احساس اور محبت کا وافر حصہ نصیب ہوتا ہے اور کسی کو معمولی حصہ ملتا ہے؛ معمولی حصہ اسی کے حصے میں آتا ہے جو ہر وقت شہوت میں ڈوبا ہوا ہو، اکثر اوقات غافل رہے، تاہم ان میں سے بھی کئی ایسے ہوتے ہیں جب ان کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دیدار کا اتنا مشتاق ہو جاتا ہے کہ اگر ایک نظر کے لیے اپنے مال و دولت، اولاد اور والد کے عوض بھی اس دیدار کو ترجیح دینی پڑے تو گریز نہ کرے، لیکن یہ جذبات زیادہ دیر نہیں رہتے؛ کیونکہ یہ شخص تسلسل سے غفلت میں ملوث ہے۔ واللہ المستعان۔
دیکھیں: فتح الباری: (1/59)

اسی معنی کی طرف اللہ تعالی کا یہ فرمان اشارہ کرتا ہے: النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ ترجمہ: نبی مومنوں کے ہاں ان کی اپنی جانوں سے زیادہ حقدار ہیں۔[الاحزاب: 6]

اس آیت کی تفسیر میں ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اپنی امت کے بارے میں شفقت اور خیر خواہی کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں ہے اسی لیے اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس کو خود مومنوں کی جانوں سے زیادہ حقدار بنا دیا، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فیصلہ اہل ایمان کے ہاں ان کے اپنے انتخاب پر بھی مقدم ہوتا ہے۔" ختم شد
تفسیر ابن کثیر: (6/380)

اسی طرح الشیخ ابن سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے اہل ایمان کو ایسی خبر دی ہے کہ جس کی روشنی میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مقام، مرتبے اور حالت کو پہچان کر پھر اسی کے تقاضوں کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ پیش آئیں، چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا: { النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ} ترجمہ: نبی مومنوں کے ہاں ان کی اپنی جانوں سے زیادہ حقدار ہیں۔[الاحزاب: 6] تو انسان کے قریب ترین اور انسان کے ہاں سب سے زیادہ حق انسان کی اپنی ذات کا ہوتا ہے، لیکن رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا مقام اپنی ذات سے بھی زیادہ قرار دیا؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مومنوں کی اتنی خیر خواہی کی ان پر اتنی شفقت اور نرمی فرمائی کہ اس تعامل کی وجہ سے آپ امت پر سب سے زیادہ مشفق اور نرمی کرنے والے قرار پائے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پوری امت پر کسی بھی محسن مخلوق سے بڑے محسن ہوئے؛ کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ پوری امت کو ذرہ برابر بھی خیر پہنچے یا ذرہ برابر بھی نقصان سے محفوظ رہیں تو اس کی آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی وجہ اور سبب ہیں۔ لہذا ہر امتی پر واجب ہوا کہ جب ذاتی خواہش ، یا چہیتے لوگوں کی خواہش کا تصادم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات سے ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات کو ترجیح دے، اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قول کے سامنے کسی کے قول کو نہ لائے چاہے کوئی بھی ہو! اپنی جان، مال، اور اولاد سب کچھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر فدا کر دے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت کو ساری مخلوق کی محبت سے مقدم رکھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے فیصلے سے پہلے کوئی فیصلہ مت کریں نہ ہی آپ کے سامنے آگے بڑھیں" ختم شد

اس مسئلے کو نکھارنے کے لیے اہل علم کی مندرجہ بالا گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ: اللہ تعالی کا غضب اور جہنم دونوں ہی انسان کے لیے سب سے زیادہ خوفناک چیزیں ہیں، ان سے بچاؤ کا ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے راستے کے بغیر ممکن نہیں ہے، اسی طرح اللہ تعالی کی رضا اور جنت دونوں ہی انسان کے لیے سب سے زیادہ مرغوب چیزیں ہیں، اور یہ دونوں چیزیں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے راستے کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتیں۔

تو پہلی بات کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے اس فرمان میں اشارہ فرمایا کہ: (میری اور تمہاری مثال ایک ایسے شخص کی ہے جس نے آگ جلائی ، جب اس کے چاروں طرف روشنی ہو گئی تو پروانے اور یہ کیڑے مکوڑے جو آگ پر گرتے ہیں اس میں گرنے لگے اور آگ جلانے والا انہیں اس میں گرنے سے روکنے لگا لیکن وہ اس کے قابو میں نہیں آئے اور آگ میں گرتے رہے ۔ اسی طرح میں تمہارے ازار بند والے حصے کو پکڑ کر آگ سے تمہیں نکالتا ہو ں اور لیکن تم میرے ہاتھوں سے پھسل کر آگ میں گرتے ہو۔) اس حدیث کو امام مسلم: (2285) نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے، جبکہ یہی حدیث صحیح بخاری: (3427) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ: آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جاہلوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات کے مخالفوں، اپنی ہوس پرستی کی غلامی میں آ کر آخرت کی آگ میں گرنے والوں کے لیے تشبیہ کا ذکر فرمایا کہ نافرمان لوگ کس طرح خود سے چاہتے ہیں کہ آگ میں گریں حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم انہیں گرنے سے روک رہے ہیں، اور انہیں پکڑ کر بچانے کی کوشش کر رہے ہیں ، ان لوگوں کو آگ کے پتنگوں اور کیڑوں مکوڑوں سے تشبیہ اس لیے دی کہ وہ کس طرح دنیا کی آگ میں گرنا پسند اس لیے کرتے ہیں کہ انہیں نتائج کا علم نہیں ہے، اور وہ من مانی میں نقصان دہ چیز اور مفید چیز میں تفریق نہیں کر پاتے۔ ختم شد
شرح مسلم، از امام نووی رحمہ اللہ

اور دوسری بات کی طرف اشارہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس فرمان میں موجود ہے کہ: (میری ساری کی ساری امت جنت میں داخل ہو گی، سوائے ان لوگوں کے جو انکار کر دیں۔) صحابہ کرام نے کہا: جنت میں جانے سے انکاری کون ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہو گیا اور جس نے میری نافرمانی کی تو یقیناً اس نے جنت میں جانے سے انکار کر دیا۔) صحیح بخاری: (7280) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔

اللہ تعالی عمل کی توفیق دے۔

ماخذ: الاسلام سوال و جواب