الحمد للہ.
جس شخص پر زکاۃ واجب ہو جائے تو وہ کسی بھی قابل اعتماد شخص کو زکاۃ تقسیم کرنے کی ذمہ داری سونپ سکتا ہے، تاہم افضل یہی ہے کہ زکاۃ خود ہی تقسیم کرے اور کسی کو اس کام کی ذمہ داری نہ دے، تا کہ زکاۃ کی ادائیگی یقینی طور پر ہو سکے۔
چنانچہ " الإنصاف " (3 /197 ) میں ہے کہ:
"زکاۃ کی ادائیگی کیلئے کسی کی ذمہ داری لگانا جائز ہے، اور یہی موقف درست ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ شخص قابل اعتماد ہونا چاہیے، اس شرط کے بارے میں امام احمد نے صراحت سے گفتگو کی ہے، اور [حنبلی]صحیح موقف کے مطابق اس کا مسلمان ہونا بھی ضروری ہے" انتہی
اور نووی رحمہ اللہ " المجموع " (138/6) میں کہتے ہیں کہ:
"جس زکاۃ کو خود تقسیم کر سکتا ہے اس کیلئے کسی دوسرے کو بھی ذمہ داری سونپ سکتا ہے۔۔۔ اگرچہ یہ بھی ایک عبادت ہے تاہم پھر بھی کوئی دوسرا شخص یہ ذمہ داری نبھا سکتا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے قرض کی ادائیگی میں کوئی دوسرا شخص بھی مقروض شخص کا نمائندہ بن سکتا ہے، اور ویسے بھی اس بات کی ضرورت پڑ سکتی ہے کہ کوئی دوسرا شخص زکاۃ تقسیم کرے، مثلاً: مالک کے پاس مال نہیں ہے، لیکن مالک کے نمائندے کے پاس مالک کی رقم موجود ہے تو وہ زکاۃ تقسیم کر سکتا ہے۔۔۔ تاہم بذات خود زکاۃ تقسیم کرنا افضل ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے، کیونکہ خود زکاۃ تقسیم کرنے پر دل جتنا مطمئن ہوگا، اتنا کسی کو ذمہ داری سونپنے پر نہیں ہوگا" انتہی
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"کیا فطرانہ اور زکاۃ جمع کر کے تقسیم کرنے کیلئے کسی کو اپنا نمائندہ بنایا جا سکتا ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"فطرانہ کی ادائیگی کیلئے کسی کو اپنا نمائندہ بنانا اسی طرح جائز ہے جیسے زکاۃ غریبوں تک پہنچانے کیلئے کسی کو اپنا نمائندہ بنانا جائز ہے، لیکن فطرانے میں یہ ضروری ہے کہ غریب لوگوں تک نماز عید سے پہلے فطرانہ پہنچ جانا چاہیے؛ کیونکہ نمائندگی کرنے والا شخص فطرانہ ادا کرنے والے کا نائب ہے، تاہم اگر کوئی غریب اس نمائندے کی یہ ڈیوٹی لگا دے کہ میری طرف سے تم فلاں شخص سے فطرانہ وصول کر لینا تو اب اس نمائندے کے پاس عید کے بعد تک فطرانہ رہ سکتا ہے، کیونکہ وہ اس وقت غریب شخص کی نمائندگی کر رہا ہے، اور غریب شخص کے نمائندے نے اگر فطرانہ عید نماز سے پہلے وصول کر لیا ہے تو وہ ایسے ہی ہے جیسے غریب شخص نے خود وصول کر لیا ہے" انتہی
"مجموع الفتاوى" (18/310)
واللہ اعلم.