الحمد للہ.
اول:
کوئی شخص مکان کرائے پر لے اور مالک مکان کے ساتھ معاہدہ طے ہو جائے اور مالک مکان کرایہ دار کو مکان میں رہنے کی اجازت دے دے تو معاہدے کے وقت سے ہی کرایہ کی رقم کرایہ دار کے ذمہ مالک مکان کا قرض شمار ہو گا۔
جیسے کہ علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ "الکافی" (1/279) میں کہتے ہیں:
"اگر کوئی اپنا گھر کئی سالوں کے لیے کرائے پر دے: تو مالک مکان کرائے کے معاہدے کے وقت سے اس رقم کا مالک بن جائے گا ، اور اس کرائے کی رقم پر زکاۃ کا سال بھی شمار کیا جائے گا، اور یہ رقم مالک مکان کا کرایہ دار پر قرض شمار ہو گی۔ " ختم شد
اس بنا پر: اگر کرائے کی رقم کرایہ نامہ جاری ہونے سے ہی کرایہ دار پر مالک مکان کا قرض شمار ہو گی تو پھر اب مالک مکان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ کرایہ دار پر کرائے کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے منافع [جرمانہ] عائد کرے، یا اضافی کرایہ وصول کرے؛ کیونکہ یہ حرام سود میں شمار ہو گا۔
دوم:
اگر کرایہ نامہ میں ہی ادائیگی کی تاخیر کی صورت میں جرمانے کا ذکر ہو تو پھر کرائے کا یہ معاہدہ ہی حرام ہو گا، ایسے معاملے میں شامل ہی نہیں ہونا چاہیے؛ بھلے انسان کو یہ یقین ہو کہ وہ وقت پر کرایہ ادا کر دیا کرے گا؛ کیونکہ ایسے معاہدے میں شمولیت سودی لین دین کا اقرار اور اپنے آپ کو اس کا پابند بنانا ہے جو کہ حرام ہے، نیز انسان کو بیماری اور سفر جیسے حالات کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے جو اسے وقت پر ادائیگی کے لیے رکاوٹ بن سکتے ہیں۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (101384 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم