منگل 7 شوال 1445 - 16 اپریل 2024
اردو

بيوى كو ويسے ہى ہم بسترى كے حق سے دستبردار ہونے كا كہا ليكن نيت ميں عليحدگى نہ تھى

162577

تاریخ اشاعت : 06-04-2013

مشاہدات : 7847

سوال

بيوى كے ہاں ولادت كے بعد كچھ عرصہ سے ميرے اور بيوى كے مابين آئندہ حمل نہ ٹھرنے اور بچے كى پيدائش ميں وقفہ كرنے كے طريقہ كے متعلق كچھ مشكل اور اختلاف سا پيدا ہوا ہے.
اسى سلسلہ ميں بيوى مجھے كہنے لگى كہ تم اس كے بدلہ كوئى اور وسيلہ تلاش كر لو، جس سے مجھے بہت غصہ آيا اور ميں نے اسے كہا:
ميں اپنے جماع اور ہم بسترى كے حق سے دستبردار ہوتا ہوں، ليكن ميرى نيت ميں اس سے عليحدگى نہ تھى، بلكہ ميں نے يہ شدت غضب سے اسے يہ كہا تھا.
اور اب مجھے علم نہيں كہ اس كا حكم كيا ہے، اور نہ ہى اپنى نيت كے متعلق جانتا ہوں كہ اس وقت ميں كس نيت پر تھا، كيونكہ ميں وسوسہ كى بيمارى كا شكار ہوں، جس كا ميں اللہ كے تعاون سے وسوسہ كى طرف التفات نہ كر كے علاج بھى كر رہا ہوں، ليكن اب تك وسوسہ ميں مبتلا ہوں، برائے مہربانى بتائيں كہ ميں نے جو كچھ كہا ہے اس كا حكم كيا ہے اللہ آپ كو بركت سے نوازے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

آپ كو يہ كہنا كہ: آپ اپنے جماع كے حق سے دستبردار ہوتے ہيں.

اگر تو آپ اپنے اس قول سے نہ تو بيوى كو حرام كرنے كا اور نہ ہى اس سے جماع كرنے سے ركنا مراد لے رہے ہيں، اور اسى طرح آپ نے اس سے طلاق بھى مراد نہيں لى جيسا كہ آپ نے سوال ميں بيان بھى كيا ہے اور نہ ہى ظھار مراد ليا ہے تو آپ كے ذمہ كچھ نہيں ہے.

اور اگر آپ نے اپنے اس قول سے بيوى كو حرام كرنا اور بيوى سے جماع كرنے سے رك جانا مراد ليا تو پھر يہ ايك حلال چيز كو حرام كرنا ہے، اس ليے اس كا حكم قسم كے حكم ميں آتا ہے، اور آپ كو اس ميں قسم كا كفارہ ادا كرنا ہوگا.

اور اگر آپ نے اس سے طلاق مراد لى ہے تو يہ طلاق ہو گى يا پھر اگر ظھار مراد ليا تو يہ ظھار ہوگا.

مزيد آپ سوال نمبر ( 126458 ) كے جواب كا مطالعہ كريں، كيونكہ اس ميں بيوى كو اپنے اوپر حرام كرنے كے متعلق اور كب قسم شمار ہوگى يا طلاق يا ظھار كے بارہ ميں كلام كى گئى ہے.

اور آپ كو وسوسہ جيسى بيمارى سے بچ كر رہنا چاہيے اور اس سے اعراض كرتے ہوئے اس كے علاج معالجہ كى كوشش كريں، اور يہ علم ميں ركھيں كہ وسوسہ ميں مبتلا شخص كى طلاق اس وقت تك واقع نہيں ہوتى جب تك وہ طلاق كا ارادہ نہ كرے چاہے اس نے صريح الفاظ بھى بولے ہوں.

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 127870 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب