جمعہ 26 جمادی ثانیہ 1446 - 27 دسمبر 2024
اردو

عقد نكاح كے دو گھنٹے بعد ہے طلاق كے وسوسہ كا شكار ہو گيا

127870

تاریخ اشاعت : 21-03-2010

مشاہدات : 6863

سوال

ميں جوان ہوں اور ايك لڑكى سے عقد نكاح كيا، اور عقد نكاح كے تھوڑى ہى دير بعد دو دو گھنٹے سے بھى متجاوز نہيں بغير كسى سبب كے ہى مجھے طلاق كى سوچ كا وسوسہ آنے لگا، اور اس وقت سے ليكر اب تك كلمہ " تو " اور تجھے طلاق " ميرى زبان پر بھارى ہوچكا ہے اور زبان سے خارج ہونا چاہتا ہے ليكن ميں اسے طلاق نہيں دينا چاہتا، ليكن يہ چيز مجھ سے طاقتور ہوچكى ہے، ميں محسوس كرتا ہوں كہ جو كلام كر رہا ہے وہ ميں نہيں.
يہ علم ميں رہے كہ ميں اپنے آپ سے ہى بات كرتا رہتا ہوں ليكن آواز بلند نہيں ہوتى كہ سنى جائے، ميں گاڑى ميں تھا مجھے ياد نہيں كہ ميں نے يہ الفاظ زبان سے نكالے ہيں يا نہيں نكالے ؟ يہ بھى علم ميں رہے كہ ميرے خيال ميں بھى طلاق نہ تھى كيونكہ ميں اس لڑكى سے محبت كرتا ہوں، اور الحمد للہ اس سے عقد نكاح كيا ہے؛ تو پھر اسے بغير كسى سبب كے طلاق كيوں دوں ؟
ہميشہ مجھے شيطان وسوسہ ميں ڈالتا ہے كہ ميں حرام كام كر رہا ہوں اور مجھے سينہ ميں بوجھ سا محسوس ہوتا ہے!!

جواب کا متن

الحمد للہ.

وسوسہ ميں مبتلا شخص كى طلاق واقع نہيں ہوتى چاہے وہ طلاق كے الفاظ زبان سے بھى ادا كر دے، جب تك وہ طلاق كا قصد نہ كرے، كيونكہ جيسا كہ سوال ميں بيان ہوا ہے: وہ طلاق كا ارادہ نہيں ركھتا، اور نہ ہى طلاق كے بارہ ميں سوچتا ہے، اور پھر اس كا كوئى سبب بھى نہ طلاق دى جائے، بلكہ يہ تو شيطانى وسوسہ ہے.

بعض اوقات يہ وسوسہ قوى و طاقتور ہو جاتا ہے حتى كہ اس شخص كو خيال آنے لگتا ہے كہ اس نے طلاق كے الفاظ كى ادائيگى كى ہے، بلكہ بعض اوقات الفاظ ادا كر بھى ديتا ہے، ليكن وہ اس ميں معذور ہے؛ كيونكہ اس كى عقل پر غلبہ ہے، بالكل اس كى طرح جس كى عقل غصہ كى بنا پر ماؤف ہو، يا پھر وہ غلطى كرنے والا جو غلطى سے طلاق كے الفاظ بول دے.

امام بخارى رحمہ اللہ صحيح بخارى ميں باب باندھتے ہوئے كہا ہے: باب ہے عقل پر پردہ ہونے اور جبر كى حالت ميں اور نشہ كى حالت ميں اور مجنون اور ان كے حكم كے بارہ ميں، اور غلط اور بھول ميں طلاق اور شرك كے متعلق "

كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اعمال كا دارومدار نيت پر ہے، اور ہر شخص كے ليے وہى ہے جس كى اس نے نيت كى "

اور امام شعبى رحمہ اللہ نے يہ آيت تلاوت فرمائى:

اے ہمارے پررودگار اگر ہم بھول جائيں اور غلطى كر ليں تو ہمارا مؤاخذہ نہ كرنا .

اور جو وسوسہ والے شخص سے جائز نہيں؛ اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس شخص كے ليے فرمايا تھا جس نے اپنے آپ پر اقرار كيا تھا كہ:

" كيا تمہيں جنون ہے "

اور عقبہ بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں:

" وسوسہ والے شخص كى طلاق جائز نہيں " انتہى مخصرا

فقھاء كى ايك جماعت نے اس كى صراحت كى ہے جو ہم اوپر بيان كر چكے ہيں، كہ وسوسہ والے شخص كى طلاق واقع نہيں ہوگى، اور نہ ہى اس پر كوئى چيز لازم آتى ہے.

ابو قاسم العبدرى كہتے ہيں:

" عيسى نے ايك شخص كے بارہ سنا كہ وہ وسوسہ كا شكار ہے اور اپنے آپ سے باتيں كر رہا ہے اور كہہ رہا ہے: ميں نے اپنى بيوى كو طلاق دے دى، يا طلاق كى بات كر رہا ہے اور وہ طلاق نہيں چاہتا يا اسے شك ہو رہا ہے ؟

تو انہوں نے كہا:

اسے اس سے روكا جائے، اور اس پر كچھ نہيں .

اسى طرح المدونہ ميں درج ہے:

" وسوسہ والے شخص كى طلاق لازم نہيں كى جائيگى، اور يہ وسوسہ ايسا ہے جس ميں طلاق نہيں؛ كيونكہ يہ تو شيطان كى جانب سے ہے، اس ليے اس سے ركنا چاہيے، اور اس كى جانب التفات نہ كيا جائے؛ كيونكہ جب ايسا كيا جائے يعنى اس كى جانب التفات نہيں كيا جائےگا تو شيطان اس سے نااميد ہو جائيگا، تو يہ اس كے ليے ان شاء اللہ شيطان كے اس سے ركنے دور ہونے كا باعث اور سبب بنےگا " انتہى مختصر

ماخوذ از: تاج و الاكليل ( 4 / 86 ).

اور ابن نجيم حنفى كى البحر الرائق ( 5 / 15 ) اور علامہ ابن قيم كى اعلام الموقعين ( 4 / 49 ) كا بھى مطالعہ كريں.

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" وسوسہ ميں مبتلا شخص كى طلاق واقع نہيں ہوگى، حتى كہ اگر وہ اپنى زبان سے بھى طلاق كے الفاظ ادا كر دے جب يہ الفاظ قصد اور ارادہ سے نہ ہوں، كيونكہ يہ الفاظ تو وسوسہ والے شخص كى زبان پر بغير كسى قصد اور ارادہ كے آتے ہيں، بلكہ وسوسہ كى قوت دافع نے قلت مانع كى بنا پر اس كى عقل پر پردہ پڑا ہوتا ہے، اور وہ اس پر مجبور كيا گيا ہے.

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" عقل پر پردہ ہونے كى حالت ميں طلاق نہيں "

اس ليے اگر وہ حقيقتا اور اطمنان كے ساتھ طلاق كا ارادہ نہ كرے تو اس سے طلاق واقع نہيں ہوگى، يہ چيز اس كے ارادہ اور اختيار كے بغير ہوئى اور وہ اس پر مجبور تھا اس ليے اس سے طلاق واقع نہيں ہوگى " انتہى

ماخوذ از: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 277 ).

حاصل يہ ہوا كہ آپ سے كوئى طلاق واقع نہيں ہوئى چاہے آپ نے اس كے الفاظ بھى بولے ہوں، الا يہ كہ اگر آپ نے اپنے الفاظ سے طلاق كا ارادہ و قصد كيا ہو، اور آپ كو اس وسوسہ كا علاج كرانا چاہيے، اس كا علاج يہ ہے كہ آپ كثرت سے اللہ كى اطاعت اور اس كا ذكر كريں، اور اس وسوسہ سے اعراض كريں، اور جو چيز اس وسوسہ كا باعث بنتى ہے اس كى مخالفت كريں.

مزيد آپ سوال نمبر ( 62839 ) اور ( 105994 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو شفايابى و عافيت سے نوازے اور شيطان كى چالوں كو آپ سے دور ركھے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب