الحمد للہ.
اول:
انسان کے فوت ہوتے ہی مال ورثاء میں منتقل ہوجاتا ہے، جسکی وجہ سے مالی ذمہ داری بھی اصل مالک [جو کہ صورتِ مسئلہ میں والد ہے] سے نئے مالکان [یعنی ورثاء] پر منتقل ہوجائے گی، چنانچہ ورثاء کے شرعی حصص کے مطابق ان میں زکاۃ تقسیم ہوگی، جس کیلئے والدہ کو آٹھواں حصہ، اور باقی جائیداد بیٹوں اور بیٹیوں میں اس انداز سے تقسیم کی جائے گی کہ بیٹے کو بیٹی سے دوگنا ملے۔
پھر اسکے بعد ان میں سے ہر ایک وراثت میں ملنے والے مال کو اپنے سابقہ [اگر موجود ہو تو]مال میں شامل کرلے، چنانچہ اس طرح سے ہر شخص کا اپنا زکاۃ کیلئے نصاب ہوگا، اور اس وارثت میں ملنے والے مال کا سال انکے مورَث [وہ میت جسکا ترکہ تقسیم ہو]کی وفات اور جائیداد کی ورثاء میں منتقلی سے ہی شروع ہوجائے گا، اور اگر مورَث اپنی زکاۃ کے مالی سال مکمل ہونے سے پہلے ہی فوت ہوجائے تو اس سال کا اعتبار نہیں ہوگا، اور ترکہ کے نئے مالکان کیلئے نئے سرے سے سال شمار کیا جائے گا۔
دائمی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
“وارث، وراثت میں ملنے والے مال کی زکاۃ کب ادا کریگا؟ اپنے قبضے میں لیتے وقت یا قبضے کے بعد ایک سال گزرنے کے بعد؟اسی طرح تحفۃً ملی ہوئی نقدی یا جائیداد کی زکاۃ کب ادا کی جائے گی؟
تو انہوں نے جواب دیا:
“وارث کو ترکہ میں ملنے والے مال کی زکاۃ مُورَث کی وفاۃ سے ایک سال بعد ادا کی جائے گی، بشرطیکہ یہ مال نقدی، زیور، سونا یا چاندی کسی بھی شکل میں نصاب کے برابر ہو، کیونکہ ترکہ کی ملکیت میت کی جانب سے ورثاء میں اسی دن منتقل ہوجاتی ہے، جس دن اسکی وفات ہوئی تھی”انتہی
“فتاوى اللجنة الدائمة” (9/305)
اور اگر ترکہ میں زرعی زمین ہے، تو جس دن فصل یا پھل حاصل کیا جائے اس دن اس کی زکاۃ ادا کی جائی گی، اور زرعی زمین کی زکاۃ ایک سال تک مؤخر نہیں کی جاسکتی کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے: ( وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ ) اور [زرعی زمین]کا حق اسکی کٹائی کے دن دو۔الأنعام/141
اور اس بارے میں مزید تفصیلات کیلئے سوال نمبر: (99843) (3593) کا مطالعہ کریں۔
دوم:
زرعی زمین کی پیداوار سے حاصل ہونے والی آمدن بھی اصلی ترکہ کی طرح ہر وارث پر اسکے حصے کی طرح تقسیم کی جائے گی، چنانچہ بیٹے کو بیٹی سے دوگنا دیا جائے گا، لیکن پہلے مجموعی پیداوار سے زکاۃ ادا کرکے ورثاء پر آمدن تقسیم ہوگی۔
جبکہ مکانات کی زکاۃ کے بارے میں یہ ہے کہ: ذاتی رہائش کیلئے تیار شدہ مکانات پر زکاۃ نہیں ہے۔
اور اگر کرایہ پر دینے کیلئے رہائشی مکانات تعمیر کئے گئے ہیں تو مکانات پر زکاۃ پھر بھی نہیں ہوگی، بلکہ اسکے کرائے پر زکاۃ ہوگی، چنانچہ مجموعی مال میں اس کرائے کی رقم کو شامل کیا جائے گا، اور مجموعی مال نصاب کے برابر ہونے کی صورت میں سال پورا ہونے پر زکاۃ ادا کی جائے گی، اس کیلئے سوال نمبر: (159321) کا جواب ملاحظہ کریں۔
سوم:
اگر آپکے والد کی وفات سے لیکر اب تک گزشتہ مدت میں آپ نے زکاۃ ادا نہیں کی، تو آپکو سابقہ بیان شدہ طریقہ کے مطابق زکاۃ ادا کرنی ہوگی، چنانچہ آپکے ذمہ ایک سال کی زکاۃ ہے، پھر دوسرا سال مکمل ہونے پر اسکی زکاۃ بھی دینی ہوگی جسکا آدھا حصہ گزر چکا ہے۔
واللہ اعلم.