الحمد للہ.
اول:
قراءت سے پہلے تعوذ پڑھنا علمائے کرام کے صحیح موقف کے مطابق سنت ہے۔
اور یہ بھی صحیح موقف ہے کہ تعوذ صرف پہلی رکعت میں پڑھا جائے گا، اس کی تفصیلات ہم پہلے سوال نمبر: (65847 ) میں بیان کر چکے ہیں۔
دوم:
نماز میں تسمیہ بھی سورت فاتحہ سے پہلے پڑھنا مسنون ہے ، اس کی تفصیلات بھی ہم پہلے سوال نمبر: (22186 ) کے جواب میں بیان کر چکے ہیں۔
اس بنا پر: اگر کوئی شخص تسمیہ جان بوجھ کر ، یا بھول کر چھوڑ دے تو اس پر سجدہ سہو لازم نہیں ہے، تاہم اگر وہ بسم اللہ عام طور پر پڑھتا ہو اور اس کی بسم اللہ پڑھنے کی عادت ہو تو سجدہ سہو کرنا مستحب ہے، وگرنہ نہیں۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (112077 ) اور (65847 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
لیکن اگر جان بوجھ کر ترک کرے تو پھر سجدہ سہو نہیں کر سکتا؛ کیونکہ سجدہ سہو اس کے لیے جو کسی عمل یا قولی ذکر کو نماز میں بھول کر چھوڑ دے؛ جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جب تم میں سے کوئی بھول جائے تو دو سجدے کرے) مسلم: (572)
دوم:
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے فقہی مذہب کے مطابق بھی تسمیہ سنت ہی ہے۔
"الموسوعة الفقهية" (8/87) میں ہے کہ:
"اس بارے میں فقہ حنفی کے مذہب کا خلاصہ یہ ہے کہ: تسمیہ آہستہ آواز میں امام اور منفرد کے لیے ہر رکعت میں سورت فاتحہ سے پہلے پڑھنا مسنون ہے، تاہم سورت فاتحہ اور اس کے بعد پڑھی جانے والی سورت کے درمیان میں مطلق طور پر ابو حنیفہ اور ابو یوسف کے ہاں مسنون ہے؛ کیونکہ ان کے ہاں بسم اللہ سورت فاتحہ کا حصہ نہیں ہے، صرف برکت کے لیے سورت کے آغاز میں ذکر کی گئی ہے۔"
واللہ اعلم