الحمد للہ.
اول:
شریعت سے مراد مکمل دین ہے، اسی دین کو اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے لیے اس لیے منتخب کیا ہے کہ انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے آئے، شریعت سے مراد وہ اوامر و نواہی اور حلال و حرام ہیں جو اللہ تعالی نے لوگوں کو واضح کر کے بتلائے ہیں، اب اگر کوئی شخص اللہ تعالی کی شریعت کی پابندی کرے، شرعی طور پر حلال چیز کو ہی حلال سمجھے، اور شرعی طور پر حرام چیز کو ہی حرام جانے تو وہ کامیاب ہو گیا، جبکہ شریعت الہی کی مخالفت کرنے والا، اپنے آپ کو اللہ تعالی کی ناراضی، غضب اور سزا کا مستحق ٹھہراتا ہے۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ
ترجمہ: پھر ہم نے آپ کو شریعت کے واضح راستے پر چلا دیا ہے، آپ اسی کی اتباع کریں، علم نہ رکھنے والوں کی خواہشات کے پیچھے مت چلیں۔[الجاثیہ: 18]
خلیل بن احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"شریعت اور اس کی جمع شرائع: دینی امور سے متعلق اللہ تعالی کی طرف سے مقرر کردہ اعمال، اللہ تعالی نے انہیں نماز، روزے، حج اور اسی طرح کی دیگر عبادات بجا لانے کا حکم دیا ہے، اسی کو بسا اوقات شِرعَۃ بھی کہا گیا ہے۔" ختم شد
"العين" (1/ 253) ، اسی طرح دیکھیں: "الصحاح" از جوہری: (3/ 1236)
ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"شریعت سے مراد وہ طریقہ ہے جو اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانی بطور دین مقرر فرمایا ہے، اسی طرح آپ سے قبل انبیائے کرام کی زبانی احکامات مقرر فرمائے تھے۔ ان تمام احکامات میں سے صرف ناسخ پر ہی عمل ہو گا۔
لفظ شریعت لغوی طور پر دریا کی ایسی جگہ پر بولا جاتا ہے جہاں سوار اور پیادہ یکساں طور پر پانی پینے کے لیے آ سکیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ
ترجمہ: اس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا جس کا تاکیدی حکم اس نے نوح کو دیا اور جس کی وحی ہم نے تیری طرف کی اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم ،موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا، یہ کہ اس دین کو قائم رکھو اور اس میں فرقے فرقے نہ ہوجاؤ۔ مشرکوں پر وہ بات بھاری ہے جس کی طرف تو انھیں بلاتا ہے، اللہ اپنے ہاں جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے اور اپنی طرف راستہ اسے دیتا ہے جو رجوع کرے۔ [الشوری: 13] " ختم شد
"الإحكام" (1/ 46)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"انسان اپنے کسی بھی معاملے میں شریعت سے باہر نہیں جا سکتا؛ کیونکہ اس کے فائدے کے جتنے بھی امور ہیں سب ہی شریعت میں شامل ہیں، چنانچہ بنیادی نوعیت کے امور ہوں یا فروعی نوعیت کے، انسان کی کیفیت سے تعلق رکھتے ہوں یا اعمال سے، سیاست سے یا تجارت سے، یا اس کے علاوہ کسی بھی قسم کے امور ہوں الحمد للہ سب شریعت میں شامل ہیں؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ شریعت اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سمیت صاحب اقتدار کی اطاعت کا نام ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، رسول کی اطاعت کرو، اور اپنے حکمران کی۔ [النساء: 59]
اللہ تعالی نے قرآن کریم کی بہت سی آیات میں اپنی اطاعت اور اپنے رسول کی اطاعت کو لازم قرار دیا ہے، نیز اپنی نافرمانی اور اپنے رسول کی نافرمانی کو حرام کہا ہے، اسی طرح اللہ تعالی نے اپنی رضا، مغفرت، رحمت اور جنت کا وعدہ بھی دیا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے پر تمہیں یہ سب کچھ ملے گا، پھر اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی صورت میں جہنم کی دھمکی بھی دی ہے۔ لہذا اب کوئی عالم ہے یا گورنر، یا عبادات گزار ہے یا تاجر؛ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت حصول علم، معرفتِ حکم، امر یا نہی، عمل یا عبادت وغیرہ میں لازمی طور پر کرے۔
شریعت کی حقیقت یہ ہے کہ: رسولوں کی اتباع کریں اور ان کی اطاعت گزاری میں شامل ہو جائیں، بالکل اس کے بر عکس معاملہ بھی ٹھیک ہے کہ ان کی اتباع سے دوری ان کی اطاعت سے دوری ہے۔ جبکہ رسولوں کی اطاعت گزاری ہی دین الہی ہے۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (19/ 309)
دائمی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
"اللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ کتابوں، اور پھر ان کتابوں کے ہمراہ لوگوں کی طرف بھیجے ہوئے رسولوں کا نام شریعت ہے، لوگوں کی طرف رسولوں کو اس لیے بھیجا گیا کہ لوگ ان کتابوں پر عبادت کی نیت سے عمل کریں، قرب الہی تلاش کریں، اور اپنے اعمال رسولوں کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق کریں۔
اس کے مطابق بہترین اور معتمد طریقہ جس کی روشنی میں اللہ تعالی نے اپنے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو خاتم الرسل بنایا وہ یہ ہے کہ:
وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ
ترجمہ: یقیناً یہ میرا سیدھا راستہ ہے، تم اسی کی اتباع کرو، اور دیگر راستوں کے پیچھے مت پڑو، تو تمہیں اس کے راستے سے بھٹکا دیں گے۔[الأنعام: 153] "
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان بھی ہے کہ: (میری امت 73 فرقوں میں بٹ جائے گی، سارے کے سارے فرقے جہنم میں ہوں گے ما سوائے ایک فرقے کے، کہا گیا: یہ کون ہوں گے ، اللہ کے رسول؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جو شخص بھی میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر ہو گا۔) تو یہ بھی شریعت میں شامل ہے۔
شریعت کے مذکورہ بالا تصور سے ہٹ کر، دیگر فرقے مثلاً: صوفی، تیجانی، نقشبندی اور قادری وغیرہ ، تو یہ طریقے بدعت ہیں، انہیں تسلیم کرنا، یا ان راستوں پر چل کر اللہ تعالی کی رضا تلاش کرنا جائز نہیں ہے۔"
"فتاوى اللجنة الدائمة" (2/ 219)
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (147608 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔