منگل 18 جمادی اولی 1446 - 19 نومبر 2024
اردو

کتب ستہ کے مولفین

21523

تاریخ اشاعت : 06-10-2003

مشاہدات : 52482

سوال

کتب ستہ کے مولفین کون ہیں اور کیا ان کی کتابوں میں ضعیف احادیث بھی پائ جاتی ہیں ؟ ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.


کتب ستہ کے مولفین یہ ہیں :

1 - امام بخاری رحمہ اللہ تعالی

2 امام مسلم رحمہ اللہ تعالی

3 امام ابوداود رحمہ اللہ تعالی

4 امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی

5 امام نسائ رحمہ اللہ تعالی

6 امام ابن ماجہ رحمہ اللہ تعالی

آپ کے سامنے ہرایک کا مختصر سا سوانحی خاکہ رکھتے ہيں :

اول :

امام بخاری رحمہ اللہ تعالی :

نام و نسب :

ابوعبداللہ محمدبن اسماعیل بن ابراھیم بن المغیرہ بن بردزبہ الجعفی البخاری ۔

نسبت : امام بخاری کے دادا مغیرہ بخارا کے گورنریمان جعفی کے غلام تھے ، تواسلام لانے کے بعد اسی کی طرف منسوب کیے جانے لگے ۔

ولادت اورحالات :

امام بخاری رحمہ اللہ الباری نے 194 ھـ بخارا میں آنکھ کھولی تو آپ کے والد وفات پا چکے تھے ، دس برس سے بھی کم عمر میں انہوں نے حدیث کوحفظ کرنا شروع کردیا تھا ، جب جوان ہوۓ تومکہ مکرمہ کا سفرکیا اورفریضہ حج ادا کرنے کے بعد مکہ میں ہی رہ کرآئمہ فقہ اور اصول حدیث سے علم کا حصول کرتے رہے ۔

تواس کے بعد علم کے حصول کے لیے سولہ برس تک ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہے ، جس میں بہت سارے آئمہ حدیث کے سامنے زانوۓ تلمذ تہ کیے اورحادیث نبویہ اکٹھی کیں حتی کہ ان احادیث کی تعداد 600.000 سے بھی تجاوزکرگئ ۔

اوران احادیث میں انہوں نے ہزار محدثوں سے مراجعہ اورمناقشہ کیا جوکہ صدق و تقوی اورسلیم العقیدہ سے معروف تھے ، تواتنی بڑی تعداد احادیث میں سے انہوں نے اپنی کتاب صحیح بخاری کومرتب کیا جس ميں انہوں نے صحت کے اعتبارسے دقیق ترین علمی اسلوب متعین کرنے اور احادیث کی صحت میں تمیزو چھان پھٹک کے بعد صحیح بخاری کومرتب فرمایا حتی کہ انہوں نے اس کتاب میں وہ سب صحیح احادیث جمع نہیں کی جوان کےپاس تھی بلکہ وہ احادیث جمع کیں جوصحیح احادیث میں سے بھی اصح ترین احادیث کا درجہ رکھتی تھیں ۔

اوراپنی کتا ب کا ( الجامع الصحیح المسند من حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ وایامہ ) نا م رکھا جو کہ صحیح بخاری کے نام سے معروف ہو چکی ہے ۔

امیر بخارا نے یہ چاہا کہ امام بخاری رحمہ اللہ الباری اس کے گھر جاکر اس کی اولاد کوتعلیم دیں اور احادیث سنائيں تو امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی طرف پیغام بھیجا " علم ان کے گھر میں ہی دیا جاۓ گا " یعنی علم کے پاس آیا جات ہے نہ کہ علم کسی کے پاس جاتا ہے تو جوبھی علم کا حصول چاہتا ہو اسے علماء کے پاس ان کے گھریا پھر مسجد میں جانا ہوگا ، توامیر بخارا اس وجہ سے ان سے حقد کرنے لگا اورانہیں بخارا سے نکلنے کا حکم دے دیا ۔

توامام بخاری رحمہ اللہ الباری سمرقند کے قریب ایک خرتنک نامی بستی جہاں پران کے کچھ اقربا بھی رہائش پزیر تھے وہاں آگۓ اورموت تک وہیں رہے انکی موت 256 ھـ میں 62 برس کی عمر میں ہوئ اللہ تعالی ان پررحم فرماۓ ، آمین ۔

دوم :

امام مسلم رحمہ اللہ تعالی :

نام ونسب اور حالات :

مسلم بن حجاج بن مسلم القشیری نیسا پوری اور کنیت ابو الحسین تھی حفاظ آئمہ حدیث میں ہیں اور اعلام محدثین میں شمار ہوتا ہے ۔

نیساپور میں امام شافعی رحمہ اللہ الکافی کی وفات والے دن 204 ھـ میں آنکھ کھولی ابتدائ علم نیسا پور میں ہی حاصل کیا اورجب جوان ہوۓ تو حصول علم کے لیے عراق اورحجاز کا رخ کیا ، جہاں پر شیوخ کی کثیر تعداد سے سماع کیا اورامام مسلم رحمہ اللہ تعالی سے بہت سارے حدیث کے علماء سے حدیث روایت کی ہے ۔

ان کی مشہورکتب میں صحیح مسلم شامل ہے جو کہ کتب ستہ میں ایک معتمد کتا ب کا درجہ رکھتی ہے ، امام مسلم نے اس کتاب کی تالیف میں تقریبا پندرہ برس صرف کیے ، اور صحیح مسلم کا احادیث کی قوت کےاعتبار سے درجہ امام بخاری کی صحیح بخاری کے ساتھ ہے ، اور بہت سے علماء نے اس کی شروحات لکھی ہیں ۔

امام مسلم رحمہ اللہ تعالی کی کتب میں " کتاب الطبقات ، کتاب الجامع ، کتاب الاسماء ، وغیر ہ بھی شامل ہیں جن میں سے کچھ مطبوع اورکچھ مخطوط ہیں ، امام مسلم رحمہ اللہ تعالی نیسا پور کے قریب نصرآباد نامی شہر میں 57 برس کی عمر 261 ھـ میں اس دار فانی سے کوچ فرما گۓ اللہ تعالی ان پررحمت برساۓ ۔ ۔

سوم :

امام ابوداود رحمہ اللہ المعبود :

نام ونسب :

سلیمان بن الاشعث بن شداد بن عمرو بن اسحاق بن بشیر الازدی سجستانی ، انہیں سجستان کی طرف نسبت کرتے ہوۓ سجستانی کہا جاتا ہے ۔

حالات و رحلات :

ابوداود رحمہ اللہ تعالی اپنے دورمیں اھل حدیث کے امام مانے جاتے تھے اورسنن ابو داود کے مؤلف ہیں جو کہ کتب ستہ میں سے ایک ہے ، 202 ھـ میں پیدا ہوۓ اوربغداد میں امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ تعالی سے فقہ کا علم حاصل کیا اور ان کے ساتھ ہی رہے اورامام احمد سے مشابہت رکھتے تھے ۔

طلب علم کے لیے حجاز عراق اور خراسان ، شام و مصر اور ثغور کی طرف سفر کیا ، ان کے شاگردوں میں امام نسائ اورترمذی وغیرہ شامل ہیں ان میں بلند درجہ کی صلاح اورتمسک بالدین پایا جاتا تھا انہوں نے اپنی کتاب سنن مین تقریبا ( 5300 ) احادیث جمع کی ہیں ۔

امیر ابواحمد ( الموفق العباسی ) نے ان کے سامنے تین چیزیں رکھیں کہ ان پر عمل کرو پہلی یہ کہ بصرہ جا کراسے اپنا مسکن بنا لیں تاکہ طلاب علم وہاں جائيں اور بصرہ آباد ہو، دوسری یہ کہ : اس کی اولاد کوسنن ابوداود پڑھائيں ، اور تیسری یہ کہ : اس کی اولاد کے لیے ایک خاص مجلس ہونی چاہیے اس لیے کہ خلیفہ کے بچے عالم لوگوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے ۔

تو ابوداود رحمہ اللہ المعبود نے جواب دیا کہ پہلی اور دوسری بات تو مانی جاسکتی ہے لیکن تیسری بات کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا اس لیے کہ علم میں سب لوگ برابر ہیں ، تومؤفق العباسی کی اولاد عالم لوگوں کی مجلس میں ہی حاضر ہوکربیٹھتے تھے صرف عام طلاب اور موفق کی اولاد کے درمیان پردہ ہوتا تھا ۔

ابوداود رحمہ اللہ تعالی بصرہ میں ہی رہے اوروہیں 275 ھـ میں 73 برس کی عمر میں اس دارفانی سے رحلت کرگۓ اللہ تعالی ان پروسیع رحمت برساۓ ۔

چہارم :

امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی :

نام ونسب :

محمد بن عیسی بن سورۃ بن موسی بن ضحاک السلمی الترمذی ، اور کنیت ابو عیسی ہے ، ماوراء النھر کے علاقہ ترمذ سے تعلق رکھتے ہیں اوراسی کی طرف نسبت کرتے ہوۓ ترمذی کہا جاتا ہے ۔

آئمہ حدیث میں شمار ہوتے ہیں 209 ھـ میں پیدا ہوۓ اور امام بخاری رحمہ اللہ تعالی کے سامنے زانوۓ تلمذ تہ کیے اور امام بخاری رحمہ اللہ الباری کے کچھ شيوخ و اساتذہ سے بھی حدیث سماعت فرمائ ، خراسان ، عراق اورحجاز کی طرف طلب حدیث کے لیے سفرکیا ۔

حفظ وامانت اورعلم حاصل کرنے میں اپنے شیوخ امام احمد بن حنبل اورابوداود سے شہرت حاصل کی اور الجامع تصنیف فرمائ جو کہ کتب احادیث ستہ میں سے ایک ہے جس میں علل حديث کے فنون جمع کیے جس سے فقیہ آدمی مستفید ہوتا ہے ، اس لیے کہ وہ حدیث کوذکرکرتے ہوۓ غالبا فقہی حکم بھی ذکر کرتےہیں اور اس کی اسانید ذکرکرنے کے ساتھ ساتھ جتنے صحابی بھی اس حدیث کوروایت کرنے والے ہوں ان کا تذکرہ کرنے کے بعد حدیث پرضعیف اورصحیح کا حکم بھی لگاتے ہیں ۔

اور یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ فقہاء میں سے اس حدیث کو کس نے لیا اور کس نے اسے نہیں لیا ، توان کی یہ کتاب جامع ترمذی سنن میں جامع اور فقیہ کے لیے زیادہ نفع مندہے ۔

اوران کی دوسری تصانیف میں کتاب الشمائل النبویہ اور علل فی الحديث شامل ہیں ، مختلف ممالک میں گھوم کرصحیح احادیث اکٹھی کرنے کے بعد زندگی کے آخری ایام میں نابینا ہوگۓ تھے ، 70 برس کی عمر پا کر179 ھـ میں اس دارفانی سے رحلت فرما گۓ ، اللہ تعالی ان پر وسیع رحمت برساۓ ۔

پنجم :

امام نسائ رحمہ اللہ تعالی :

نام و نسب :

احمدبن شعیب بن علی بن سنان بن بحر بن دینار النسائ ، اورکنیت ابوعبدالرحمن تھی ۔

خراسان کے ایک شہر نسا میں ( 215 ھـ ) پیداہوۓ اوراسی کی نسبت سے نسائ کہا جاتا ہے ، اس کی طرف نسائ یا نسوی نسبت ہوتی ہے ، امام نسائ دین کے اعلام اوراپنے دورکے امام اورمحدیثین کے ہراول دستے میں تھے ، امام نسائ کی جرح وتعدیل علماء کے ہاں معتبر ہے ۔

امام حاکم رحمہ اللہ تعالی بیان فرماتے ہیں کہ : میں نے ابوالحسن دراقطنی کو کئ باریہ کہتے ہوۓ سنا کہ : ابوعبدالرحمن علم حدیث میں جتنے لوگوں کا بھی ذکر ملتا ہے ان میں مقدم ہیں اوراپنے زمانے میں راویوں پرجرح وتعدیل کرنے میں بھی مقدم تھے ۔

انتہائ درجہ کے متقی اورمتورع تھے ، اورصیام داود علیہ السلام کا التزام کیا کرتے تھے جو کہ روزوں میں سے افضل ہیں کہ ایک دن روزہ رکھتے اورایک دن افطار کرتے ۔

بصرہ کواپنا مسکن بنایا اوروہیں ان کی تصانیف بھی مشہور ہوئيں اور لوگ ان سے حصول علم کیا پھرامام نسائ رحمہ اللہ تعالی دمشق منتقل ہوۓ اور وہیں تیرہ صفر 300 ھـ کو 85 برس کی عمر میں رحلت فرماگۓ ، اللہ تعالی ان پراپنی رحمتیں برساۓ ۔،

ششم :

ابن ماجہ رحمہ اللہ تعالی :

نام ونسب :

محمد بن یزید الربعی القزوینی ، اور کنیت ابو عبداللہ ان کے والد یزید ماجہ کےنام سے معروف تھے اسی بنا پریہ ابن ماجہ کے نام سے معروف ہیں اورولاء میں ربعیہ کی طرف نسبت سے ربعی مشہور ہیں ۔

حافظ مشہور سنن حدیث کے مولف ابن ماجہ قزوین میں 209 ھـ کو پیداہوۓ اورکتابت حدیث اورحصول علم کے لیے عراق ، بصرہ ، کوفہ ، بغداد ، مکۃ المکرمہ ، شام ، مصر اور رئ‏ کی طرف سفر کیا ۔

اور ان رحلات میں تین کتابیں تصنیف کیں ، ایک کتاب تفسیر اور ایک کتاب تاريخ جس میں صحابہ کرام کے دور سے لیکر ان کے دورتک کے رجال کی خبریں اورحالات مدون کیے ، اور تیسری کتاب سنن ابن ماجہ ہے ۔

بالآخر یہ بھی 22 رمضان بروز سوموار273 ھـ میں 64 برس کی عمر پا کر اس دار فانی سے کوچ کر گۓ ۔ اللہ تعالی ان پر اپنی رحمت برساۓ ۔

کتب ستہ کی احادیث پرحکم :

صحیح بخاری اور صحیح مسلم کوتوامت نے شرف قبولیت دے دیا اور اس پرمتفق ہیں کہ ان میں جوکچھ پایا جاتا ہے وہ سب صحیح ہے الا یہ کہ بعض الفاظ جو کہ بخاری اور مسلم رحمہما اللہ نے اس لیے نقل کیے ہیں کہ یاتو صراحتا ان کی علت بیان کی جاۓ اور یا پھر تلمیحا جیسا کہ علماء کرام اور محققین حضرات نے تحقیق کی ہے ۔ مثلا شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی۔

لیکن باقی ساری کتب سنن ، ( سنن ابو داود ، نسائ ، ترمذي ، ابن ماجہ ) میں ضعیف احادیث پائي جاتی ہیں کچھ پرتو صاحب کتب نے متنبہ کردیا ہے ، ، کیونکہ اصحاب سنن رحمہم اللہ تعالی نے سب احاديث ضعیفہ کی وضاحت نہیں فرمائ کہ یہ ضعیف ہے ، اسی لیے باقی بعض احادیث ضعیفہ کو دوسرے علماء کرام نے بیان کردیا ہے ، اس لیے کہ اصحاب سنن نے احادیث کوباسند بیان کیا ہے جس کی بنا پر اہل علم آسانی سے صحیح اورضعیف کو سند میں موجود راویوں کے حالات و جرح وتعدیل اور ثقہ اورضعیف کی بحث کرکے علیحدہ کر سکتے ہیں ۔

اوران علماء رجال میں سے مشہور علماء احمد بن حنبل ، دارقطنی ، یحیی بن معین ، حافظ ابن حجر عسقلانی ، امام ذھبی ، الواقی ، السخاوی ، اور معاصرین میں سے علامہ ناصرالدین الالبانی اور احمد شاکر وغیرہ رحمہم اللہ تعالی اجمعین ہیں ۔

واللہ تعالی اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد