الحمد للہ.
الحمدللہ:اول:
رمضان میں دن کے وقت جماع کرنا روزہ توڑنے والے سنگین ترین اعمال میں شامل ہے، ایسے عمل سے استغفار اور توبہ کرنا ضروری ہے، نیز اس دن کی قضا اور پھر کفارہ بھی لازمی ہے۔
اس کا کفارہ بالترتیب یوں ہے: غلام آزاد کریں، اگر میسر نہ ہو تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھیں، اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائیں۔
کفارے کی اس ترتیب کے مطابق اگلی صورت اسی وقت اپنائی جائے گی جب انسان سابقہ صورت پر عمل کرنے سے قاصر ہو اور استطاعت نہ رکھتا ہو۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (106532) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
اگر عورت کا جماع کے دوران قابل قبول عذر ہو، مثلاً: اس پر جبر کیا گیا ہو، یا وہ بھول گئی ہو، یا ماہ رمضان میں دن کے وقت جماع کی حرمت کا علم نہ ہو، تو اس پر نہ تو گناہ ہے اور نہ ہی کفارہ۔
تاہم جس دن عورت کو جماع پر مجبور کیا گیا اس دن کے روزے کے صحیح ہونے کے متعلق اختلاف ہے؛ چنانچہ اگر احتیاط سے کام لیتے ہوئے اس دن کی قضا دے دےتو یہ بہتر ہے۔
لیکن اگر جماع میں عورت اپنے خاوند کی تابعداری دکھاتی رہی، اور عورت کا اس میں کوئی عذر بھی نہیں تھا تو اس پر قضا اور کفارہ دونوں واجب ہیں، یہی جمہور علمائے کرام کا موقف ہے۔
اس مسئلے کی مزید تفصیلات کے لیے آپ سوال نمبر: (106532) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
اگر عورت واقعی اپنی صحت کی وجہ سے روزے نہ رکھ سکتی ہو تو اس کے لئے کفارہ یہ ہے کہ ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائے، کھانا کھلانے کی ذمہ داری عورت پر ہے، یا اپنے خاوند کو اس کام کے لئے اپنا نمائندہ مقرر کرے گی۔
دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (9/245) میں ہے:
"رمضان میں دن کے وقت جماع کا کفارہ گزشتہ ترتیب کے مطابق فرض ہے، اس لیے روزے رکھنے کی اجازت اسی وقت ہو گی جب غلام آزاد کرنے کی صلاحیت نہ ہو، اور اسی طرح کھانا کھلانے کی اجازت اسی وقت ہو گی جب روزے رکھنے کی صلاحیت نہ ہو۔ چنانچہ اگر کوئی کھانا کھلانے کی صورت میں کفارہ دیتا ہے کہ وہ غلام آزاد نہیں کر سکتا اور نہ ہی روزے رکھ سکتا ہے تو پھر اس کے لئے جائز ہے ساٹھ غریب اور مساکین روزے داروں کی افطاری مقامی خوراک کے ذریعے کروا دے، ایک بار اپنی طرف سے اور دوسری بار اپنی بیوی کی طرف سے، یا پھر ساٹھ مساکین کو کھانا سپرد کر دے، ساٹھ صاع اپنی طرف سے اور ساٹھ صاع اپنی بیوی کی طرف سے، ہر ایک کو ایک صاع دے جس کی مقدار تقریباً تین کلو ہے۔" ختم شد
چہارم:
کفارے کے روزوں کے درمیان میں حیض کے ایام آ جائیں تو ان سے روزوں کے تسلسل پر کوئی فرق نہیں پڑتا، اس لیے عورت حیض کے ایام میں روزے نہیں رکھے گی، پھر جب طہر آ جائے تو جہاں سے روزے چھوڑے تھے وہیں مکمل کر کے دو ماہ پورے کرے گی؛ کیونکہ حیض تو آدم کی بیٹیوں پر اللہ کی جانب سے لکھا ہوا معاملہ ہے، اس میں عورت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، اور اس بات پر اہل علم کا اجماع ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (82394) کا جواب ملاحظہ کریں۔
ان تفصیلات کی بنا پر: ہر ماہ ماہواری کا آنا ، یا مشقت کا خدشہ ایسا معتبر عذر نہیں ہے کہ کھانا کھلانے کی جانب منتقل ہو سکیں؛ بلکہ حیض آئے بھی تو روزے رکھنا ہی واجب ہے، روزوں کی بجائے کھانے کی اجازت اسی وقت ہو گی جب روزے رکھنے کی استطاعت نہ ہو۔
واللہ اعلم