الحمد للہ.
اول:
فقہائے کرام کی ایک جماعت نے عاشوراء اور اس سے ایک دن پہلے اور ایک دن بعد روزہ رکھنے کو مستحب قرار دیا ہے ، بلکہ اس انداز سے تین روزے رکھنے کو سب سے اعلی ترین طریقہ کار قرار دیا ہے۔
چنانچہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عاشوراء کا روزہ رکھنے کے تین مراتب ہیں:
سب سے اعلی مرتبہ یہ ہے کہ: عاشوراء کا روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک دن پہلے اور ایک بعد میں بھی روزہ رکھا جائے۔
دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ: 9 اور 10 محرم کا روزہ رکھیں، اکثر احادیث میں یہی عمل مذکور ہے۔
اس کے بعد: یہ ہے کہ صرف 10 تاریخ کا روزہ رکھا جائے۔" انتہی
"زاد المعاد" (2 /76)
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (128423) کا مطالعہ کریں۔
دوم:
عاشوراء کا روزہ رکھنے کا پختہ عزم کرنے کے بعد روزہ نہ رکھ پائے تو اس کی درج ذیل صورتیں ہو سکتی ہیں:
- عاشوراء کا روزہ جان بوجھ کر نہ رکھے، تو ایسے شخص کو عاشوراء کے روزے کی فضیلت حاصل نہیں ہو گی؛ کیونکہ اس شخص نے تو روزہ رکھا ہی نہیں ہے۔
- عاشوراء کا روزہ رکھنے کی نیت تو کی تھی لیکن روزہ رکھنا بھول گیا، ایسے شخص کیلیے اللہ تعالی سے امید ہے کہ اسے ثواب مل جائے گا۔ ان شاء اللہ
- روزہ کسی بیماری کی وجہ سے چھوڑا ، لیکن پہلے اس کی عادت تھی کہ جب بھی عاشوراء کا دن آتا تو وہ اس دن روزہ رکھتا تھا، یا روزہ رکھنے کا عزم تھا لیکن بیماری آڑے آ گئی تو اس کیلیے بھی اللہ تعالی سے ثواب کی امید ہے؛ کیونکہ صحیح بخاری: (2996) میں ابو موسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اگر کوئی شخص بیمار ہو جائے یا سفر پر چلا جائے تو اس کیلیے دورانِ سفر اور بیماری اتنے ہی عمل کا ثواب لکھا جاتا ہے جو وہ حالتِ قیام اور تندرستی میں کیا کرتا تھا)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ : اس کیلیے اتنا ہی ثواب لکھا جاتا ہے جو اس کیلیے حالتِ قیام اور تندرستی میں لکھا جاتا تھا؛ کیونکہ نیکی کرنے کی اس کی نیت تو تھی لیکن عذر کی بنا پر وہ نیکی کر نہیں پایا" انتہی
"مجموع الفتاوى" (23 /236)
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا :
میں ہر سال یوم عرفہ اور عاشوراء کا روزہ رکھتا ہوں، لیکن گزشتہ سال عاشوراء کا روزہ رکھنا بھول گیا، اور یہ بھول گیا کہ یہ روزہ عاشوراء کا روزہ تھا، تاہم میں نے اپنا روزہ مکمل کیا اور پھر گیارہ تاریخ کا بھی روزہ رکھا، تو کیا میرا یہ عمل درست تھا؟
انہوں نے جواب دیا:
"پورے محرم کے روزے رکھنا اچھا عمل ہے، چنانچہ جس قدر بھی آپ محرم میں روزے رکھیں یہ الحمد للہ اچھا عمل ہے، اور ہمیں امید ہے کہ آپ کو اس دن کے روزے کا ثواب بھی ملے گا جس دن کا روزہ رکھنا آپ بھول گئے؛ کیونکہ آپ نے اس دن کا روزہ جان بوجھ کر نہیں چھوڑا، اس لیے آپ کو اس کا اجر ان شاء اللہ ملے گا، نیز آپ نے گیارہ محرم کو بھی روزہ رکھا یہ آپ نے اچھا کیا؛ کیونکہ دس تاریخ کا روزہ تو آپ بھولنے کی وجہ چھوڑ بیٹھے تھے اب اس کا اجر تو آپ کو ملے گا اور یہ ایسے ہی جیسے کہ دس تاریخ کو آپ بیمار ہو گئے پھر گیارہ کو طبیعت سنبھلی تو آپ نے روزہ رکھ لیا" انتہی
http://www.binbaz.org.sa/mat/13711
لہذا آپ نے عاشورا کا روزہ اگر کسی عذر کی بنا پر چھوڑا ہے لیکن آپ کی اس دن روزہ رکھنے کی نیت تھی تو امید ہے کہ آپ کو اس دن کا روزہ رکھنے کا اجر ملے گا اور اگر بغیر عذر کے آپ نے روزہ چھوڑا تھا تو پھر آپ کو اجر نہیں ملے گا؛ کیونکہ اجر عمل کے عوض ملتا ہے، یا پھر اس شخص کو ملتا ہے جو عمل کرنے کی پختہ نیت کرے لیکن کسی عذر کی بنا پر عمل نہ کر سکے، جیسے کہ بخاری: (4423) میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک سے واپسی پر جب مدینہ کے قریب پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مدینہ میں کچھ لوگ ہیں وہ پورے سفر اور ہر وادی کو عبور کرتے ہوئے [اجر میں]تمہارے ساتھ تھے) صحابہ کرام نے استفسار کیا: "اللہ کے رسول! کیا وہ مدینہ میں رہتے ہوئے بھی؟!" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مدینہ میں رہتے ہوئے بھی، انہیں عذر نے تمہارے ساتھ آنے نہیں دیا)"
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حقیقت میں وہ لوگ بھی عملاً ان کا ساتھ چاہتے تھے ، ان کے دل میں بھی اس کی تڑپ تھی، لیکن عذر کی بنا پر اپنی تمنا پوری نہیں کر سکے؛ چنانچہ وہ بھی [اپنی پختہ نیت اور ارادے کی وجہ سے غزوہ میں ]عملاً شرکت کرنے والوں کے برابر درجے تک پہنچ گئے " انتہی
"مجموع الفتاوى" (10 /441)
اور اگر آپ نے عاشورا کا روزہ رکھنے میں سستی سے کام لیا تھا اور اجر سے محروم ہو گئے تو پھر اپنے اس احساس محرومی کو مستقبل میں مزید نیک کام کرنے کا باعث بنائیں اور پھر آپ سستی اور کاہلی کا شکار مت بنیں۔
اگر آپ عاشورا کے روزے کا اجر پورا لینا چاہتے ہیں تو پھر آپ محرم کے دیگر ایام میں زیادہ سے زیادہ روزے رکھیں؛ کیونکہ ماہِ محرم میں روزے رکھنے کی بہت زیادہ فضیلت ہے، جیسے کہ مسلم : (1163) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (رمضان کے بعد افضل ترین روزے اللہ کے مہینے محرم کے ہیں)
گناہوں کا کفارہ حاصل کرنے کیلیے آپ صدق دل سے توبہ کریں اور استغفار اپنی عادت بنا لیں۔
نیز اگر عاشورا کا روزہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے اور عرفہ کا روزہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے، تو یاد رکھیں سچی توبہ سارے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے۔
اس بارے میں مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (21819) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم.