منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

يوم عاشوراء كے ساتھ گيارہ تاريخ كا بھى روزہ ركھنا فقھاء كيوں مستحب قرار ديتے ہيں ؟

سوال

يوم عاشوراء كے متعلق ميں نے سارى احاديث كا مطالعہ كيا ہے ليكن كسى ميں بھى يہ نہيں ملا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہود كى مخالفت كرتے ہوئے گيارہ محرم كا روزہ ركھنے كا اشارہ كيا ہو، بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا تو فرمان يہ ہے كہ:
" اگر ميں آيندہ برس زندہ رہا تو ميں نو اور دس تاريخ كا روزہ ركھوں گا " يہوديوں كى مخالفت كرتے ہوئے، اسى طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے صحابہ كرام كى بھى گيارہ تاريخ كا روزہ ركھنے كى راہنمائى نہيں فرمائى.
اس بنا پر كيا يہ بدعت تو نہيں كہلائيگى كہ جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نہيں كيا ہم وہ كر رہے ہيں، اور نہ ہى صحابہ كرام نے ايسا كيا ہے ؟
اور كيا اگر كسى شخص كا نو محرم كا روزہ رہ جائے تو دس محرم كا روزہ كفائت كر جائيگا يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

علماء كرام نے گيارہ محرم كا روزہ ركھنا اس ليے مستحب قرار ديا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے صحابہ كرام كو ايسا كرنے كا حكم ديا تھا.

مسند احمد كى روايت ميں ہے كہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" يوم عاشوراء كا روزہ ركھو، اور اس ميں يہوديوں كى مخالفت كرتے ہوئے ايك دن قبل روزہ ركھو يا ايك دن بعد ميں "

مسند احمد حديث نمبر ( 2155 ).

اس حديث كو صحيح قرار دينے ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، شيخ احمد شاكر نے اسے حسن قرار ديا ہے، اور مسند احمد كے محققين حضرات اسے ضعيف كہتے ہيں.

اور ابن خزيمہ نے اسے ان الفاظ كے ساتھ روايت كيا ہے ديكھيں: ابن خزيمۃ حديث نمبر ( 2095 ) علامہ البانى رحمہ اللہ كہتے ہيں: ابن ابى ليلى كے سوء حفظ كى بنا پر اس كى سند ضعيف ہے، اور عطاء وغيرہ نے اس كى مخالفت كى ہے، انہوں نے اسے ابن عباس سے موقوف روايت كيا ہے، اور اس كى سند امام طحاوى اور بيھقى كے ہاں صحيح ہے " انتہى

اس ليے اگر حديث حسن ہے تو يہ حسن ہے، اور اگر ضعيف ہے تو اس طرح كے مسئلہ ميں علماء كرام تساہل سے كام ليتے ہيں، كيونكہ ا سكا ضعف تھوڑا سا ہے، نہ تو يہ موضوع ہے اور نہ ہى مكذوب، اور اس ليے بھى كہ يہ فضائل اعمال ميں ہے خاص كر محرم الحرام ميں روزے ركھنے كى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ترغيب دلائى ہے.

حتى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" رمضان المبارك كے بعد سب سے افضل روزے محرم الحرام كے ہيں "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1163 ).

امام بيھقى نے يہ حديث سنن الكبرى ميں مندرجہ بالا الفاظ كے ساتھ روايت كى ہے، اور ايك دوسرى روايت ميں يہ الفاظ ہيں:

" اس كے ايك دن قبل اور ايك دن بعد روزہ ركھو " يہاں يا كى بجائے اور كےالفاظ ہيں.

اتحاف المہرہ ميں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان الفاظ كے ساتھ رويت كيا ہے كہ:

" اس كے ايك دن قبل اور ايك دن بعد روزہ ركھو "

ديكھيں: اتحاف المھرۃ حديث نمبر ( 2225 ).

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اسے احمد اور بيھقى نے ضعيف سند كے ساتھ روايت كيا ہے، كيونكہ محمد بن ابى ليلى ضعيف ہے، ليكن اس نے اكيلے يہ روايت نہيں كى بلكہ صالح بن ابى صالح بن حي نے اس كى متابعت كى ہے " انتہى

اس طرح يہ روايت نو اور دس اور گيارہ تاريخ كا روزہ ركھنے كے استحباب پر دلالت كرتى ہے.

بعض علماء نے گيارہ تاريخ كے روزے كے استحباب كا ايك اور سبب بيان كيا ہے يہ دس تاريخ كى احتياط ہے، كيونكہ بعض لوگ محرم كے چاند ميں غلطى كر سكتے ہيں، اس ليے يقينى طور پر معلوم نہيں كہ كونسا دن دس تاريخ كا تھا، اس ليے اگر كوئى مسلمان شخص نو اور دس اور گيارہ تاريخ كا روزہ ركھ ليتا ہے تو اس نے يوم عاشورا كا روزہ ركھ ليا.

ابن ابى شيبہ نے مصنف ابن ابى شيبہ ميں طاؤس رحمہ اللہ سے روايت كيا ہے كہ وہ دس محرم سے ايك دن قبل اور ايك دن بعد روزہ ركھا كرتے تھے، كہ كہيں دس محرم كا روزہ رہ نہ جائے.

ديكھيں: مصنف ابن ابى شيبۃ ( 2 / 313 ).

اور امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جو شخص يوم عاشوراء كا روزہ ركھنا چاہتا ہے تو وہ نو اور دس تاريخ كا روزہ ركھے، ليكن اگر مہينوں ميں اسے اشكال پيدا ہو جائے تو وہ تين دن كے روزے ركھے، ابن سيرين يہى كہا كرتے تھے " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 4 / 441 ).

اس سے يہ واضح ہوا كہ تين روزوں كو بدعت كہنا صحيح نہيں ہے.

ليكن اگر كوئى شخص نو محرم كا روزہ نہيں ركھ سكا تو وہ اكيلا دس محرم كا روزہ ركھ لے تو اس ميں كوئى حرج نہيں اور يہ مكروہ نہيں ہوگا، اور اگر وہ اس كے ساتھ گيارہ محرم كا روزہ ملا لے تو يہ افضل ہے.

مرداوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" صحيح مسلك كے مطابق صرف دس محرم كا روزہ ركھنا مكروہ نہيں، شيخ تقى الدين ( ابن تيميہ ) رحمہ اللہ نے اس كى موافقت كى ہے كہ يہ مكروہ نہيں " انتہى مختصرا

ديكھيں: الانصاف ( 3 / 346 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب