منگل 2 جمادی ثانیہ 1446 - 3 دسمبر 2024
اردو

حقیقی اسلامی تربیت کیسے ممکن ہے؟

سوال

بہت سے حفاظ قرآن آپ کو معاشرے میں مل جائیں گے کیونکہ قرآن مجید حفظ کروانے والے اساتذہ موجود ہیں، بہت سے لوگ فقہ جانتے ہیں کیونکہ علمائے کرام اور مشائخ موجود ہیں، لیکن ایک مسئلہ ہے جسے ہم بڑی شدت سے محسوس کرتے ہیں کہ جب ہم لوگوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں ان کے ساتھ چلتے ہیں یا انہیں دیکھتے ہیں تو ہمیں تربیت کا فقدان نظر آتا ہے، دوسرے لفظوں میں تربیت کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے جو کہ معاشرے کیلیے انتہائی تباہ کن صورت حال ہے؛ تو سوال یہ ہے کہ تربیت کنندگان کدھر ہیں؟ تربیت کیسے ممکن ہے؟
شرعی علوم کے نصاب میں تربیت کیسے شامل ہو سکتی ہے؟ تربیت کے بغیر علم کا کیا فائدہ؟ اور ہمیں اس بات کا ادراک کیوں نہیں ہے کہ اساتذہ کے ہاں تربیت کا فقدان کیسے ہوا؟! انہوں نے تعلیم کا شعبہ کیسے اپنا لیا؟ اور تربیت کے حوالے سے جہاں تک گھر والوں کا تعلق ہے ان کا تو کوئی حال ہی نہیں ہے، گھر کی چار دیواری میں تربیت کا فقدان آخری حدوں تک پہنچ چکا ہے!
ہم تربیت کرنے والے افراد کیسے تیار کریں؟ کیا تربیت کوئی مستقل علم ہے یا اہل علم اور دانش کے فہم کا نام تربیت ہے؟
سابقہ لوگوں میں سے علمائے کرام، شاہان، سلاطین اور نامور شخصیات سے لیکر عام لوگوں تک اپنی اولاد کی تربیت کرنے کا کیا طریقہ اپناتے تھے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

یہ بات کسی سے بھی مخفی نہیں ہے کہ اس وقت علم اور عمل دونوں میں جدائی اور دراڑیں پڑ چکی ہیں، معرفت اور تربیت جدا جدا ہو چکے ہیں، اس بات سے بہت سے عام و خاص لوگ واقف بھی ہیں، پھر بھی ان میں سے بہت سے لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ تربیت اصل میں نظریاتی چیز ہے، اس کا تعلق صرف اس بات سے ہے کہ والدین اپنے بچوں  کے ذہنوں کو مختلف علوم و فنون سے بھر دیں، ان کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ تربیت سے متعلق تحقیقی مقالہ جات اور کتب تک رسائی ہو ، یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے شرعی نصوص کو صرف فنون و معارف پر بند کر دیا اور اس میں جو تربیتی پہلو تھا اس سے پہلو تہی کر لی۔

اس کی مثال یہ ہے کہ انہوں نے فرمانِ باری تعالی :

  إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ    [غافر:28]کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ بیشک اللہ تعالی سے علم والے ہی ڈرتے ہیں۔

اور اس آیت کو ہر شخص پر فٹ کر دیا جو کسی بھی علم کا جاننے والا ہے چاہے وہ شرعی علوم ہوں یا دنیاوی فنون، حالانکہ آیت میں کا مطلب یہ تھا کہ جو اللہ تعالی سے ڈرتا ہے وہ عالم ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ "مجموع الفتاوى"( 7/539)میں کہتے ہیں:
"فرمانِ باری تعالی :   إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ  [غافر:28] اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی اللہ تعالی سے ڈرتا ہے وہ عالم ہے، یہ معنی درست اور صحیح ہے، اس آیت کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ جو بھی عالم ہے وہ اللہ تعالی سے ڈرتا ہے۔" انتہی

اسی طرح ایک اور جگہ "مجموع الفتاوى"( 7/21)کہتے ہیں:
"معنی یہ ہوا کہ اللہ تعالی سے صرف عالم  ہی ڈرتا ہے؛ چنانچہ یہاں پر اللہ تعالی نے خبر دی ہے کہ جو بھی اللہ تعالی سے ڈرتا ہے وہ عالم ہے، جیسے کہ ایک دوسری آیت میں فرمایا:
 أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ 
ترجمہ:  کیا (ایسا شخص بہتر ہے) یا وہ جو رات کے اوقات قیام اور سجدہ میں عبادت کرتے گزارتا ہے، آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے پروردگار کی رحمت کا امیدوار ہے ؟ آپ ان سے پوچھیں: کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں برابر  ہو سکتے ہیں ؟ [الزمر: 9]"انتہی

جس آیت کی طرف شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے اشارہ کیا ہے یہ بھی ان آیات میں سے ہے جنہیں ان  کے معنی سے ہٹ کر بیان کرتے ہوئے  علم و معرفت کی شان ذکر کی جاتی ہے، چاہے علم و معرفت عمل اور تربیت سے عاری ہی کیوں نہ ہوں؛ کیونکہ وہ آیت کا صرف آخری حصہ ذکر کرتے ہیں ابتدا والا حصہ بیان نہیں کرتے۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ:  قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ  آیت کا آخری حصہ ابتدائی حصے:  أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ  کی تفسیر بیان کرتا ہے، چنانچہ اس آیت کے آخری حصے میں جاننے والے لوگوں سے مراد وہ ہیں جو اللہ تعالی کیلیے  رات کے وقت میں خشوع و خضوع کے ساتھ کھڑا ہو کر قیام کرتے  ہیں ، اللہ کی جہنم سے ڈرتے ہیں  اور جنت و رحمت کی امید لگاتے ہیں ، اور جو ایسا نہیں کرتے وہی حقیقت میں اس سے غافل ہیں، اب ان دونوں مفہوموں میں خود ہی غور و فکر کر لیں !

یہی وجہ ہے کہ امام ابن قیم رحمہ اللہ "مفتاح دار السعادة" (1/89) میں اسی قاعدے کو ثابت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"سلف لفظ فقہ کا اطلاق علم پر اس وقت تک نہیں کرتے تھے جب تک وہ  عمل کے ساتھ مقرون نہ ہوتا" انتہی

تو یہ ہے ہمارے سلف صالحین کے ہاں فقہ کی حقیقت ہے، یعنی وہ علم جس کے ساتھ عمل بھی ہو، تو جس وقت بہت سے تربیت کرنے والوں اور اساتذہ کے ذہنوں سے  یہ حقیقت اوجھل ہو گئی تو وہ ذہن میں صرف معلومات بغیر کسی عملی تربیت کے داخل کرنے لگے، جن میں دلوں کی اصلاح، نفس کا مقابلہ، اخلاقی تعمیر کا کوئی تصور نہیں ، کیونکہ انہوں نے سمجھ لیا کہ علم سے مراد معلومات اور انہیں سمجھنا  ہے اور بس ، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے!

اخلاقیات اور دین پر تربیت صرف ربانی افراد کے ہاتھوں ہی ہوتی ہے، چاہے وہ علماء کی صورت میں ہوں یا واعظین ، مصلحین اور معلمین کسی بھی صورت میں ہوں۔

ربانی اس شخص کو کہتے ہیں: جس کا ربِ کریم کے ساتھ علمی، عملی اور تعلیمی تعبلق بہت بلند اور نسبت بہت عالی ہو۔

فرمانِ باری تعالی ہے:
 وَلَكِنْ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ
ترجمہ: تم سب رب کے ہو جاؤ اس لیے کہ تم کتاب کی تعلیم سکھاتے ہو اور خود بھی اسے پڑھتے ہو ۔[آل عمران:79]

امام شوکانی رحمہ اللہ فتح القدیر: (1/407) میں کہتے ہیں:
"ربانی: رب کی جانب نسبت ہے، اس میں الف اور نون کا اضافہ مبالغے کیلیے ہے، جیسے کہ عربی زبان میں بہت بڑی لحیہ یعنی داڑھی والے شخص کو لحیانی کہا جاتا ہے، اسی طرح عربی زبان میں بڑے بالوں والے کو جمہ سے جمانی اور ایسے ہی موٹی گردن والے کو رقبہ سے رقبانی کہا جاتا ہے۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ: ربانی اس شخص کو کہتے ہیں جو لوگوں کی تربیت بڑے علوم سکھانے سے قبل چھوٹے  علوم کے ساتھ کرتا ہے، تو گویا کہ وہ شخص معاملات کی آسانی کرنے میں  رب کریم کے طریقے پر چلتا ہے" انتہی

خلاصہ یہ ہے کہ:

عمل سے عاری باتوں کا نام تربیت نہیں ہے، اسی طرح ایمانی مفہوم سے خالی محض معلومات کا مجموعہ بھی تربیت نہیں کہلاتا، بلکہ تربیت کا دار و مدار اس قوت کے حصول پر  ہے جس کی دل میں گہرائی بہت زیادہ ہو، تربیت لینے والے کے پاس علم اور حلم دونوں یکجا جمع ہوں، حکمت و فہم ، علم و عمل اور اس کی نشر و اشاعت کا جذبہ دل میں ہو۔

یہی وجہ ہے کہ امام شوکانی رحمہ اللہ فرمانِ باری تعالی : " وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ " کے متعلق فرماتے ہیں:
"جو "تَدْرُسُونَ " میں راء پر تشدید پڑھتے ہیں ان پر یہ تفسیر لازم ہے کہ ربانی افراد پر تعلیم و تعلّم کے ساتھ ساتھ ایک اور چیز کی ذمہ داری بھی عائد کریں، اور وہ یہ ہے کہ تعلیم و تعلم کے ساتھ اپنے من میں مخلص یا با حکمت یا حلم سے مزین ہو؛تا کہ سببیت کا معنی واضح ہو۔

اور جو اسے "تَدْرُسُونَ "ہی پڑھے تو اس کیلیے جائز ہے کہ وہ ربانی سے مراد ایسے لوگ لے جو کہ لوگوں کو علم سکھاتے ہیں، تو پھر اس آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ تم معلم بن جاؤ؛ کیونکہ تم علماء ہو اور تم علم سیکھتے ہو۔

اس آیت میں سب سے زیادہ اس بات کی ترغیب ہے کہ جسے علم ہے وہ اس پر عمل بھی کرے، اور علم پر عمل کی سب سے عظیم ترین شکل یہ ہے کہ اسے آگے پہنچائے، اور للہیت قائم رکھے" انتہی
"فتح القدیر" (1/407)

اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ربانی تربیت کا مغز اور اس کی بنیاد یہ ہے کہ عملی تربیت ہو، محض زبانی اور عمل سے عاری تربیت نہیں ہونی چاہیے۔

یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اپنے مفید رسالے "فضل علم السلف على علم الخلف" (ص 5) میں لکھا ہے کہ:
"بہت سے متاخر لوگوں کو اس فتنے نے اپنے شکنجے میں جکڑ لیا  اور  وہ سمجھنے لگے کہ جس شخص کی گفتگو، مناظرے، اور دینی مسائل میں بحث و تمحیص بہت زیادہ ہے تو وہ  دوسروں سے بڑا عالم ہے!!
حالانکہ یہ جہالت کی انتہا ہے؛ ذرا اکابر صحابہ کرام اور ان میں سے اہل علم کی جانب دیکھیں : مثلاً: ابو بکر، عمر، علی، معاذ، ابن مسعود اور زید بن ثابت وغیرہ رضی اللہ عنہم  ان کا کلام ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کم ہے، حالانکہ وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے زیادہ علم والے تھے۔

اس طرح تابعین کا کلام صحابہ کرام سے زیادہ ہے، حالانکہ صحابہ کرام ان سے زیادہ علم رکھتے تھے۔

اسی طرح تبع تابعین کا کلام تابعین سے زیادہ ہے، حالانکہ تابعین ان سے زیادہ علم رکھتے تھے۔

تو معلوم ہوا کہ علم کثرتِ روایات کا نام نہیں ہے، نہ ہی بہت زیادہ کلام کرنے کا نام علم ہے؛ علم تو دل میں ڈالا جانے والا ایک نور ہوتا ہے جس کے ذریعے بندہ حق سمجھ جاتا ہے، اور اس میں حق و باطل کے مابین امتیاز کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے، چنانچہ وہ انتہائی مختصر عبارت میں ایسی گفتگو کرتا ہے جس کے ساتھ مقصود پورا ہو جاتا ہے" انتہی

اور حقیقت میں یہی وہ سب سے بڑی مصیبت ہے جو کہ مسلم گھرانوں اور تعلیمی اداروں پر چھا گئی ہے، نیک صالح اور ربانی علمی نمونے مفقود ہیں، جو دوسروں کی تربیت اپنے اقوال کی بجائے اپنے افعال سے کریں، جو دوسروں کو سکھاتے ہوئے صحیح الفاظ کا چناؤ اور عمل صالح سے مدد لیں، اس کیلیے حکمت  اور دینِ الہی کا درست فہم  اختیار کریں اور یہ جانیں کہ اللہ تعالی اپنے بندوں سے کیا چاہتا ہے۔

ابن جوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ بات جان لو کہ ادب کی مثال بیج جیسی ہے اور ادب سیکھنے والی کی مثال زمین جیسی ہے، اگر زمین خراب ہو گی تو بیج ضائع ہو جائے گا اور اگر زمین اچھی ہوئی تو بیج تن آور بن جائے گا" انتہی
"الآداب الشرعية لابن مفلح" (3/580)
یہی وہ بنیادی چیزیں ہی جن کی وجہ سے علمائے کرام اور مصلحین کی اولادیں  نیک اور صالح تھیں، فقہائے کرام اور تربیت کنندگان کی انہی محنتوں سے لوگ سدھرے تھے، تاہم کچھ چیزیں ایسی ہیں جن میں اسباب کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا، ان کا تعلق براہِ راست پروردگار کے ساتھ ہوتا ہے جو کہ لوگوں کے اعمال کا بھی خالق ہے، وہی راہِ ہدایت کی رہنمائی کرنے والا ہے، تو زیادہ سے زیادہ تربیت کرنے والے جو کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ انہیں مؤدب  اور مہذب بنائیں ، لیکن حقیقی اصلاح اور بہتری وہ صرف اور صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ عربی زبان میں مقولہ مشہور ہے: " الأدب من الآباء ، والصلاح من الله "[یعنی: ادب تو والدین سکھلا دیتے ہیں، لیکن حقیقی اصلاح اللہ کی جانب سے ہی ہوتی ہے] انتہی
"الآداب الشرعية لابن مفلح" (3/552)

آخر میں ان تمام اہداف کو پانے کا طریقہ چند نکات میں بیان کرتے ہیں:

1- سب سے پہلے واعظین اور اساتذہ کرام خود اپنے آپ کو تربیت کی حقیقت سے روشناس کریں۔

2- اصلاح کرنے والے افراد تمام مسلمانوں کو ربانی تربیت کے وسائل سے آگاہ کریں۔

3- اصلاح کرنے والے افراد مسلم معاشرے کی با اثر شخصیات کے تعاون سے تربیتی مراکز قائم کریں جو کہ معیار میں تعلیمی اداروں کے ہم پلہ ہوں، اور تربیت کرنے والے ایسے افراد کی تیاری عمل میں آئے جو یہ فریضہ انجام دے سکے۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب