جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

روزوں کے فدیے میں مساکین کو یخنی پیش کی جا سکتی ہے؟

سوال

 میری اہلیہ گز شتہ رمضان المبارک میں روزے نہیں رکھ پائی تھی تو میں نے اپنی اہلیہ کا فدیہ دینے کا عزم کیا ہے، اس کے لیے میں نے 30 مساکین کے کھانے کے لیے مکمل رقم ادا بھی کر دی ہے، یہ رقم میں نے اپنے علاقے میں روزے داروں کے لیے افطاری کا انتظام کرنے والے شخص کو تھمائی ہے، تو چونکہ افطاری کے لیے کھانے پینے کی اشیا کافی مقدار میں موجود ہیں اس شخص نے گوشت کی مرچوں کے ساتھ یخنی تیار کرنے کا فیصلہ کیا، یہ یخنی گرما گرم ابلے ہوئے گوشت کے ساتھ پیش روزے داروں کو پیش کی جائے گی، تو کیا اس یخنی کو روزوں کے فدیے میں شمار کرنا ممکن ہو گا؟ کیونکہ حقیقی معنوں میں یہ کھانا تو نہیں ہے، مطلب یہ ہے کہ انتظامیہ کے اس فرد نے اس یخنی کو کھانا شمار نہیں کیا، تو اگر یہ کھانا شمار نہیں ہو گا تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول: اگر آپ کی اہلیہ نے کسی ایسی بیماری کے باعث روزے نہیں رکھے جس سے شفا یابی کی امید کی جا سکتی ہے ، اور آپ کی اہلیہ کو بعد میں اپنے روزوں کی قضا دینے کا موقع بھی ملتا ہے تو ان پر فدیے کی شکل میں کھانا کھلانا لازمی ہے ہی نہیں! اگر کھانا کھلا بھی دے تو کفایت نہیں کرے گا، بلکہ انہیں لازمی طور پر روزہ ہی رکھنا ہو گا۔

دوم:

اگر کوئی بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ پایا، یا ایسے مرض کی وجہ سے نہیں رکھ سکا جس سے شفا یابی کی امید نہیں ہے تو ایسے شخص کی طرف سے ہر روزے کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے گا؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ  
 ترجمہ: اور ان لوگوں پر جو روزہ رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتے ان پر ایک مسکین کو کھانا کھلانا لازم ہے۔[البقرة:184]

اسی طرح صحیح بخاری : (4505)میں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : "یہ آیت منسوخ نہیں ہے، اس سے مراد ایسے بوڑھے لوگ اور عورتیں مراد ہیں جو روزہ رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو وہ ہر دن کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلائیں۔"

اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ صحیح بخاری میں لکھتے ہیں: "باب ہے اللہ تعالی کے فرمان:   أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ   ترجمہ: [روزے] گنتی کے چند دن ہیں، تو تم میں سے جو شخص ان دنوں میں بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دیگر ایام سے گنتی پورے کرے، جبکہ روزے کی استطاعت نہ رکھنے والوں پر ایک مسکین کو کھانا کھلانا لازم ہے۔[ البقرة:184] ۔۔۔ جبکہ بوڑھا شخص اگر روزہ رکھنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اس صورت میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے بڑھاپے میں ایک یا دو سال کھانا کھلایا ہے ، ہر دن کے عوض ایک مسکین کا روٹی یا گوشت کی شکل میں کھانا کھلایا اور روزہ نہیں رکھا۔"

دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (10/198) میں ہے کہ:
"جب ماہر معالجین یہ فیصلہ کریں کہ آپ کو جس مرض کا سامنا ہے اس کی وجہ سے آپ روزہ نہیں رکھ پائیں گے نیز اس مرض سے شفا یابی کی امید بھی نہیں ہے؛ تو آپ پر ہر دن کے عوض آدھا صاع تقریباً سوا کلو کھجور وغیرہ کی شکل میں علاقائی غذائی جنس فدیے میں دینا ضروری ہے، اس صورت میں آپ سابقہ اور آئندہ کے روزوں کا فدیہ دیں گے، چنانچہ اگر آپ کسی مسکین کو رات کا کھانا یا دوپہر کا کھانا اتنے دنوں کی تعداد کے برابر کھلا دیں جتنے آپ پر روزے ہیں تو یہ آپ کے لیے کافی ہو جائے گا، جبکہ آپ کے لیے نقدی کی صورت میں فدیہ دینا کافی نہیں ہو گا۔" ختم شد

سوم: کھانا کھلانے کے لیے واجب مقدار میں اہل علم کے ہاں مختلف اقوال ہیں، تو جمہور اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ ایک مد یعنی ایک صاع کا چوتھائی حصہ واجب ہے۔ جبکہ حنبلی فقہائے کرام کہتے ہیں کہ گندم کا ایک مد، جبکہ گندم کے علاوہ اناج ہو تو آدھا صاع دینا واجب ہے، تو آدھا صاع تقریباً سوا کلو کا بنتا ہے۔

جیسے کہ "الموسوعة الفقهية" (32/ 67) میں ہے کہ:
"مالکی اور شافعی فقہائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ فدیے میں روزانہ کے عوض ایک مد اناج دیا جائے گا، اسی کے امام طاؤوس، سعید بن جبیر، سفیان ثوری، اور اوزاعی قائل ہیں۔

جبکہ احناف اس بات کے قائل ہیں کہ فدیہ میں واجب مقدار کھجور یا جو کا ایک صاع ہے، جبکہ گندم کا آدھا صاع ہے، چنانچہ روزہ خوری کے ایام کے برابر ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے گا۔

جبکہ حنبلی فقہائے کرام کے ہاں گندم کا ایک مد جبکہ کھجور یا جو کا آدھا صاع فدیہ میں دینا ضروری ہے۔" ختم شد

تاہم اگر آپ مساکین کو رات کا یا دن کا کھانا کھلا دیں تو یہ کافی ہو جائے گا جیسے کہ پہلے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے گزر چکا ہے۔

اس بنا پر: اگر یہ یخنی رات یا دوپہر کے کھانے کے قائم مقام نہیں ہوتی بلکہ یخنی بنیادی کھانے کے کا معمولی حصہ شمار ہوتی ہے یا اس سے پہلے ہوتی ہے تو آپ کا دیا ہوا فدیہ نا کافی ہو گا، آپ کو دوبارہ فدیہ دینا ہو گا۔

آپ جمہور کے موقف کے مطابق ہر مسکین کو 750 گرام چاول دے دیں۔ آپ سارا فدیہ ایک مسکین کو بھی دے سکتے ہیں اور متعدد مساکین میں تقسیم بھی کر سکتے ہیں۔

یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ معتکفین یا روزہ داروں کی افطاری کروانا فدیہ ادا کرنے کے لیے نا کافی ہو گا، ہاں تب ٹھیک ہو گا جب تمام معتکفین اور روزے دار مساکین ہوں ۔

لیکن اگر ان معتکفین کے پاس اتنی مقدار میں کھانا موجود ہے کہ انہیں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے تو پھر انہیں فدیے کا کھانا دینا کافی نہیں ہو گا؛ کیونکہ اللہ تعالی نے سابقہ آیت میں مساکین کو کھانا کھلانے کا حکم دیا ہے۔

اس لیے فدیہ خصوصی طور پر صرف مساکین کو ہی دیا جائے گا، کسی اور کو دینا جائز نہیں ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب