الحمد للہ.
بچہ پيدا ہونے كى حالت ميں گھر والوں كے ليے مشروع ہے كہ وہ بچہ كا عقيقہ كريں، اور يہ عقيقہ كے جانور ساتويں روز ذبح كيے جائينگے، بچے كى جانب سے دو اور بچى كى جانب سے ايك بكرا ذبح كيا جائيگا، گھر والوں كے اس كا سارا گوشت يا كچھ حصہ تقسيم كرنا ممكن ہے، اور اسى طرح اسے سارا پكا كر يا پھر كچھ حصہ پكا كر اہل و اقارب اور پڑوسيوں ميں تقسيم كرنا بھى ممكن ہے.
اور اگر گھر والے ساتويں روز بچے كا عقيقہ كرنے سے عاجز ہوں تو چودويں روز، يا پھر اكيسويں روز ذبح كر ليں، اور اگر وہ اس ميں بھى استطاعت نہ ركھيں بعد ميں جب بھى استطاعت ہو عقيقہ كريں.
آپ عقيقہ كا حكم ديكھنے كے ليے سوال نمبر ( 20018 ) اور عقيقہ كا بغير پكائے يا پكا كر گوشت تقسم كرنے كا حكم سوال نمبر ( 8423 ) اور (8388 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
ولادت يا وفات ميں چاليس روز كو كچھ بھى اعتبار نہيں بلكہ يہ تو فرعونى عادت ہے، كسى بھى مسلمان شخص كے اس دن كو كسى بھى عبادت يا اطاعت كے ليے خاص كرنا جائز نہيں.
سوال نمبر (12552 ) كے جواب ميں ہم شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے ” چاليسويں ” كے متعلق يہ نقل كر چكے ہيں كہ:
” اصل ميں يہ فرعونى عادت ہے، جو اسلام سے قبل فراعنہ كے ہاں منتشر تھى، اور پھر يہ ان سے دوسروں ميں سرايت كر گئى اور يہ بدعت منكرہ ہے جس كى اسلام ميں كوئى اصل نہيں، اسے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا درج ذيل فرمان رد كرتا ہے:
” جس نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى نئى چيز نكالى جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے ”
متفق عليہ.
اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں بدعات سے اجتناب كرنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا:
” اور تم نئے نئے امور سے اجتناب كرو، كيونكہ ہر نيا كام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہى ہے ”
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4607 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے، اور نسائى رحمہ اللہ نے درج ذيل الفاظ زائد روايت كيے ہيں:
” اور ہر گمراہى آگ ميں ہے ”
واللہ اعلم .