الحمد للہ.
الحمدللہشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زوال شمس ( یہ ظہرکا اول وقت ہوتا ہے ) تک نمرہ ( میدان عرفات سے قبل ایک جگہ کانام ہے ) میں ہی ٹھرے رہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اوروادی عرنہ ( یہ میدان عرفات اورنمرہ کے درمیان ایک وادی ہے ) کے درمیان میں پڑاؤ فرمایا اوروہاں ایک اذان اوردواقامتوں کے ساتھ ظہراورعصر کی نماز دو دورکعت جمع تقدیم کرکے ادافرمائي ، اورپھر آپ سوار ہوکراپنے وقوف کرنے کی جگہ پرآئے اوروقوف کیا اورفرمایا :
( میں نے اس جگہ وقوف کیا ہے اورمیدان عرفات پورا ہی وقوف کرنے کی جگہ ہے )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم غروب شمس تک قبلہ رخ ہو کراپنے ہاتھ اٹھائے ہوئے اللہ تعالی کا ذکراوردعائيں کرتے رہے ، اورجب سورج کی ٹکیہ غائب ہوئي توآپ صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ روانہ ہوئے ۔
میدان عرفات میں بعض حجاج کرام سے مندجہ ذیل غلطیاں سرزد ہوتی ہيں :
اول :
آپ کے قریب سے حجاج کرام گزریں توآپ انہيں تلبیہ کہتے ہوئے نہيں سنیں گے اورنہ ہی وہ منی سے عرفات جاتے ہوئے بلند آواز سے تلبیہ ہی کہتے ہيں ،حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تویہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم توعید کے دن جمرہ عقبہ کوکنکریاں مارنے تک تلبیہ کہتے رہے ۔
دوم :
عظيم اورخطرناک غلطیوں میں سے ایک غلطی یہ ہےکہ بعض حجاج کرام میدان عرفات کی حدود سےباہرہی وقوف کرتے ہیں اورغروب شمس تک وہ اپنی اس پڑاؤ والی جگہ پرہی رہتے ہیں ، اورپھر وہیں سے مزدلفہ روانہ ہوجاتےہیں ، اورجولوگ بھی یہاں وقوف کریں ( یعنی میدان عرفات کی حدود سے باہر ) ان کا حج ہی نہیں ہوتا کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( عرفہ ہی حج ہے ) سنن ترمذي حدیث نمبر ( 889 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے ارواء الغلیل ( 1064 ) میں صحیح قراردیا ہے ۔
لھذا جوکوئي بھی بھی میدان عرفات کی حدود میں وقت محددہ کے اندر وقوف نہيں کرتا اس کا مندرجہ بالا حدیث کی بنا پرحج صحیح نہیں ، اوریہ بہت ہی معاملہ خطرناک ہے ۔
اورمیدان عرفات کی حدود کی علامات بڑی واضح طور پربنائي گئي ہیں اوربڑے جلی حروف کے ساتھ بورڈوں پرعرفات کی حدود کی وضاحت کی گئي ہے جوصرف اورصرف سستی اورکاہلی کرنے والےشخص پرہی مخفی ہوسکتی ہیں اس کے علاوہ کسی اورسے پوشیدہ نہيں رہ سکتیں ، لھذا ہرحاجی پرواجب ہے کہ وہ ان حدود کوبڑی کوشش سے تلاش کرے تا کہ اسے میدان عرفات کی حدود کا علم ہو اوراسے یہ علم ہوسکے کہ اس کا وقوف بھی میدان عرفات میں ہوا نہ کہ عرفات سے باہر ۔
اورکاش کہ اگر حج کے ذمہ داران لوگوں کےلیے کسی ایسے وسیلہ کے ذریعہ مختلف زبانوں میں اس کا اعلان کریں جوسب حجاج کرام تک پہنچے اوروہ معلمین سےیہ عھد لیں کہ وہ حجاج کرام کووہ اس سے بچنے کا کہيں گے تاکہ لوگ اپنے معاملہ میں بصیرت پر ہوں اوراپنا حج بھی صحیح طریقہ سے ادا کرلیں جس سے وہ بری الذمہ ہوسکیں ۔
سوم :
دن کے آخری حصہ میں جب لوگ دعا میں مشغول ہوتے ہیں توآپ دیکھیں گے کہ حجاج کرام اس پہاڑ ( جبل رحمت ) کی طرف رخ کئے ہوئے ہونگے جس کے قریب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وقوف فرمایا تھا، حالانکہ قبلہ توان کے دائیں بائیں یا پچھلی جانب ہوتا ہے لیکن وہ اپنا رخ پہاڑ کی جانب کیے ہوتے ہیں ، یہ بھی جہالت اورغلط ہے ۔
کیونکہ عرفہ کے دن میدان عرفات میں دعا کرنے کا مشروع طریقہ تویہ ہے کہ انسان قبلہ رخ ہونا چاہے جبل رحمت اس کے سامنے ہویا اس کے پیچھے یا دائيں یا بائيں ہرحالت میں حاجی کودعا مانگتے وقت قبلہ رخ ہونا چاہیے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے توپہاڑ کی جانب اس لیے رخ کیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑ کی پچھلی جانب وقوف کیا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ رخ ہوئے توپہاڑ سامنے آگيا ، کیونکہ جب حاجی اورقبلہ کے مابین پہاڑ ہوتووہ ضرور اس حاجی کے سامنے ہوگا ۔
چہارم :
بعض حجاج کرام یہ گمان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے موقف والی جگہ جبل رحمت کے قریب جانا ضروری ہے ، لھذا آپ انہیں دیکھیں گے کووہ وہاں تک پہنچنے کےلیے بہت مشقت اورصعوبتیں برداشت کرتے ہیں ، اورہوسکتا ہے وہ پیدل ہوں اورراستے کا بھی علم نہ ہو تووہ پانی ملے بغیر ہی بھوکے اورپیاسے وہاں گھومتے پھریں اورراستہ بھول جائيں جس سے انہيں ضررپہنچنے کا بھی خدشہ ہوتا ہے ، یہ سب کچھ اس غلط خیال اوراعتقاد کی بنا پر ہے ، حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( میں نے اس جگہ وقوف کیا ہے ، اورسارا میدان عرفات ہی وقوف کی جگہ ہے ) ۔
گویا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرف اشارہ کررہے ہیں کہ : انسان کوچاہیے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقوف والی جگہ پرہی وقوف کرنے کی تکلیف نہ کرے بلکہ اس کے لیے جس میں آسانی ہواسے وہی کرنا چاہیے کیونکہ میدان عرفات سارا ہی وقوف کرنے کی جگہ ہے ۔
پنجم :
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ میدان عرفات میں پائے جانے والےدرختوں کی حیثیت بھی منی اورمزدلفہ کے درختوں جیسی ہے ، یعنی انسان کےلیے اس کا پتہ توڑنا اورٹہنی وغیرہ کاٹناجائز نہیں ہے ، کیونکہ وہ خيال کرتے ہیں کہ درخت کاٹنے کا تعلق بھی شکارکی طرح احرام کے ساتھ ہے ، اوریہ خيال اورگمان غلط ہے ، کیونکہ درخت کاٹنے کا تعلق احرام کے ساتھ نہیں بلکہ اس کا تعلق توجگہ کےساتھ ہے ۔
لھذا جودرخت بھی حدود حرم میں ہواس کا احترام کرنا لازم ہے ، نہ تووہ اکھاڑا جاسکتا ہے اورنہ ہی اسےکاٹا جاسکتا ہے اورپتہ وغیرہ بھی بھی توڑنا منع ہے ، لیکن جوحرم کی حدود سے باہر ہے اس کے کاٹنے اورتوڑنے یااکھاڑنے میں کوئي حرج نہيں اگرچہ انسان احرام کی حالت میں بھی ہو، تواس بنا میدان عرفات میں درخت کاٹنے میں کوئي حرج نہیں ۔۔ ۔
( لیکن وہ درخت جولوگوں نے لگارکھے ہيں وہ حرم کی وجہ سے کاٹنے حرام نہيں بلکہ وہ کسی دوسرے سبب یعنی لوگوں کے حق پرزيادتی کی وجہ سےحرام ہونگے اوراسی طرح اگروہ درخت حجاج کرام کے فائدہ کےلیے لگائے گئے ہوں تا کہ وہاں کی فضااورماحول بہتر ہوسکے اورحجاج کرام سورج کی تمازت سے بچ سکیں تواس طرح اس کےکاٹنے میں حجاج کی بھی حق تلفی ہوتی ہے ۔
تواس بنا پرمیدان عرفات میں لگائے جانے والے درخت کاٹنا بھی جائز نہيں یہ نہيں کہ وہ حرم میں ہیں بلکہ اس لیے کہ انہيں کاٹنے میں عام مسلمانوں کی حق تلفی ہوتی ہے ) ۔
ششم :
بعض حجاج کرام کایہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وقوف فرمایا تھااسے کوئي خاص اہمیت اورمرتبہ حاصل ہے اس بنا پروہ وہاں جاتے اوراس پہاڑی پرچڑھتےہیں اوروہاں کے پتھروں سے تبرک حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، اوروہاں کے درختوں کی شاخوں پرکپڑے باندھتے ہیں ، یہ سب کچھ بدعت ہے ، کیونکہ پہاڑ پرچڑھنا اوروہاں نماز پڑھنی اوردرختوں پرکپڑے وغیرہ باندھنے مشروع نہیں ، کیونکہ یہ سب کچھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہيں ہے ، بلکہ اس میں توبت پرستی کی کچھ نہ کچھ بوپائي جاتی ہے ۔
اس لیے کہ ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے درخت کے پاس سے گزرے جس کے ساتھ مشرک اپنا اسلحہ لٹکایا کرتے تھے ، توآپ کے ساتھ موجود لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی ، اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے بھی اس طرح کا لٹکانے والا درخت مقررکردیں ، تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ اکبر ، اللہ بہت بڑا ہے ، یہ طریقے ( پہلے لوگوں کے) ہیں ، یقینا تم بھی اپنے سےپہلے لوگوں کے طریقوں پرچلوگے ، اللہ کی قسم تم نے بھی وہی بات کی ہے جس طرح بنواسرائیل نے موسی علیہ السلام کوکہاتھا کہ ہمارے لیے بھی اسی طرح الہ مقرر کردو جس طرح ان کے کئي ایک الہ ہیں ۔
سنن ترمذی حدیث نمبر ( 2180 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح السنۃ ابن ابی عاصم میں اسے حسن قرار دیا ہے ۔
اوراس پہاڑ کوکوئي اہمیت اورمرتبہ حاصل نہیں بلکہ یہ بھی میدان عرفات کے دوسرے پہاڑوں جیسا ایک پہاڑ ہی ہے ، لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں وقوف فرمایا ، تواس طرح اگرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقوف والی جگہ پروقوف کرنا میسر ہوتویہ مشروع ہے ، لیکن اگر میسر نہيں ہوتا تویہ واجب نہيں کہ وہیں پر ہی ضرورجایا جائے اوروقوف کیا جائے ، اوراس وجہ سے انسان کے لائق نہيں کہ وہ وہاں جانے کا تکلف کرے ۔
ہفتم :
بعض لوگ یہ خیال کرتےہیں کہ انسان کومسجد نمرہ میں امام کےساتھ ہی ظہر اورعصر کی نماز ادا کرنا ضروری ہے ، جس کی بنا پرانہيں اس میں مشقت اورتکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے اوراس طرح ان کے لیے حج تنگي اورحرج سابن کررہ جاتا ہے ، اوروہ ایک دوسرے پرتنگی کرتے اورتکلیف دیتے ہیں ۔
حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تووقوف کے بارہ میں فرمارہے ہيں : ( میں نے اس جگہ وقوف کیا ہے اورمیدان عرفات سارا ہی وقوف کی جگہ ہے ) ۔
اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے :
( میرے لیے ساری زمین کوپاکیزہ اورمسجد بنایا گیاہے )
لھذا جب انسان بغیر کسی کوتکلیف دیے اورخود تکلیف اوراذیت اٹھائے اوربغیر کسی مشقت کے اپنے خیمہ میں ہی نماز ادا کرتا ہے تویہ اس کے لیے بہتر اورافضل اوراولی ہے ۔
ہشتم :
بعض حجاج کرام میدان عرفات سے سورج غروب ہونے سے قبل ہی نکل کرمزدلفہ روانہ ہوجاتے ہیں ، جوکہ بہت بڑی غلطی ہے ، اوراس میں مشرکوں سے بھی مشابھت ہوتی ہے جوسورج غروب ہونے سے قبل ہی میدان عرفات سے نکل جاتے تھے ، اورپھر اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی مخالفت ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تومیدان عرفات سے سورج غروب ہونے اورکے بعد جب کچھ زردی بھی غائب ہوچکی تھی نکل کرمزدلفہ روانہ ہوئے تھے ، جیسا کہ جابررضي اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں بیان ہواہے ۔
تواس بنا پر حاجی کےلیے ضروری ہے کہ وہ سورج غروب ہونے تک میدان عرفات کی حدود میں ہی رہے کیونکہ وقوف عرفہ کا وقت غروب شمس تک ہے ، توجس طرح روزے دار کےلیے سورج غروب ہونے سے قبل روزہ افطار کرنا جائز نہيں اسی طرح وقوف کرنے والے کے لیے بھی غروب شمس سے قبل میدان عرفات سے نکلنا جائزنہيں ہے ۔
نہم :
بے فائدہ وقت ضائع کرنا ، آپ دیکھیں گے کہ لوگ صبح سے لیکر دن کا کچھ حصہ باقی رہنے تک باتوں میں مشغول رہتے ہیں اورہوسکتا ہے کہ باتیں بعض اوقات تولوگوں کی عزت اچھالنے اورغیبت سے بری ہوں اورنہ کی جائيں لیکن کبھی ان باتوں میں یہ سب کچھ موجود ہوتا ہے اوروہ لوگوں کی عزتوں کواچھالتے اوران کے گوشت کھاتے ہوئے غیبتوں میں مشغول رہتے ہیں اگر یہ دوسری قسم کی باتيں ہوں توانہوں نے دوممنوعات کا ارتکاب کیا ہے :
پہلی تویہ ہے کہ : لوگوں کا گوشت کھانا اورغیبت کرنا ، اوریہ بہت ہی خلل والا کام ہے حتی کہ یہ احرام میں بھی مخل ہوتا ہے کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
لھذا جوکوئي بھی ان مہینوں میں حج لازم کرلے وہ اپنی بیوی سے میل ملاپ کرنے ، گناہ کرنے ، اورلڑائي جھگڑا کرنے سے بچتا رہے ۔
دوسری ممنوعہ چيز وقت کا ضياع ہے ۔
لیکن اگر بات چيت کسی حرام چيز پرمشتمل نہ بھی ہو توپھر بھی اس میں وقت کا ضياع ہے ، لیکن اس میں کوئي حرج نہيں کہ انسان زوال سے قبل کسی حرام بات چیت کے علاوہ میں وقت گزار لے ، لیکن زوال اورظہراورعصر کی نماز ادا کرنے کےبعد اولی اوربہتر وافضل یہ ہے کہ دعا اوراللہ تعالی کے ذکر واذکار اورقرآن مجید کی تلاوت میں مشغول رہ کروقت گزارا جائے ، اوراسی طرح اگر قرآن مجید کی تلاوت اورذکرواذکار سے اکتاہٹ پیدا ہوجائے تودوست واحباب کےساتھ شرعی علوم ومسائل میں بات چیت کرنے میں کوئي حرج نہیں ، جس سے انہيں خوشی وسرور حاصل ہواوراللہ تعالی کی رحمت اورامید کا دروازہ کھلیں ۔
لیکن اسے دن کے آخری حصہ کوموقع غنیمت جانتے ہوئے قرآن مجید اورصحیح احادیث نبویہ میں پائي جانے والی دعائيں کثرت سے کرنی چاہیيں اوراللہ تعالی کے فضل ورحمت کی امیدکرتے ہوئے گڑگڑا کرعاجزی وانکساری سے دعا میں مشغول رہے ، کیونکہ سب سےبہتر اورافضل دعائيں وہی ہیں جونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اوراس وقت میں کی گئي دعائيں زیادہ قبول ہونے کی امید ہے ۔انتھی .