الحمد للہ.
الحمدللہرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شھرمدینہ آنے والو، تمہارا آنا مبارک تم بہت اچھی جگہ آئے ہو اوربہت اچھی غنیمت حاصل کررہے ہو ، اورمدینہ طیبہ میں آپ کا رہنا اچھا رہے ، اوراللہ تعالی تمہارے اعمال صالحہ قبول فرمائے ، اوراللہ تعالی تمہاری اچھی امیدیں پوری کرے ، تم دارھجرت اورنبی مصطفی ومختار کے نصرت ومدد والے اورمھاجراورمختارصحابہ کرام کے شھر میں آئے ہوتمہارا آنا مبارک ہو ۔
مسجدرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کی زيارت کرنے والے کے لیے یہ چندایک نصیحت وتوجیھات ہيں :
1 - طابہ میں آنے والو ، تم مکہ مکرمہ کے بعد افضل ترین اوراشرف المکان اورٹکڑے میں ہو ، لھذا اس کے حق کی پہچان کرلو اوراس کی حقیقی قدر بھی کرو ، اوراس کی حرمت وتقدیس کا خیال رکھو ، اوراس میں ادب واحترام اختیارکرو ، اوریہ جان لوکہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اس میں بدعت ایجاد کرنے والے کے لیے بہت شدید عذاب کی وعید سنائي ہے :
ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( مدینہ حرم ہے ، لھذا جس نے بھی اس میں کوئي بدعت ایجاد کی یا پھرکسی بدعتی کواپنے ہاں پناہ دی اس پراللہ تعالی اورفرشتوں اورسب لوگوں کی لعنت ہو ، روز قیامت اللہ تعالی اس کا کوئي فرضي اورنفلی عمل قبول نہيں فرمائےگا ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1867 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1370 ) یہ الفاظ مسلم شریف کے ہیں ۔
لھذا جوبھی مدینہ میں کوئي گناہ کرتا ہے یا پھرکسی گناہ کرنے والے کواپنے ہاں پناہ دے اوراس کی مدد ونصرت کرے تواس نے اپنے آپ کوعذاب مھین اورالہ العالمین کےغضب سے دوچارکیا ۔
اورسب سے بڑی بدعت اورگناہ یہ ہےکہ مدینہ کی صاف شفاف ماحول کوبدعات اورنئے نئے کاموں کے اظہارسے پراگندہ کرنا ، اورخرافات وغلط چيزوں کے ساتھ اس سے لڑنا ، اورمدینہ کی پاک صاف اورمقدس سرزمین کوبدعتی مضامین اورمقالہ جات ، اورشرکیہ کتب نشر کرکے پراگندہ کرنا ، اورمختلف قسم کی منکرات اورحرام اشیاء اورشرعی مخالفتیں پھیلانا ہی سب سے بڑي منکرچيز ہے ، بدعتی اوربدعتی کوپناہ دینے اوراس کی مدد کرنے والاگناہ میں برابر ہیں ان میں کوئي فرق نہيں ۔
2 - مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زيارت سنتوں میں سے ایک سنت ہے ، نہ کہ واجبات میں سے ایک واجب ، اوراس کا حج کے ساتھ کوئي تعلق نہيں اورنہ ہی یہ حج کومکمل کرنے والی اشیاء میں شامل ہے ، حج اور زيارت مسجد نبوی ، یا حج اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے مابین تعلق کے سلسلہ میں جتنی بھی احادیث بیان کی جاتی ہیں وہ سب کی ضعیف اورموضوع ہیں ۔
اورجوکوئي بھی مدینہ کی طرف مسجد نبوی کی زيارت اوروہاں نماز پڑھنے کےلیے سفر کا قصد کرتا ہے تواس کا یہ قصد اچھا اورخالص اوراس کی کوشش مشکور ہے ، اورجوکوئي اپنے سفر اورقصد کوصرف قبروں کی زيارت اورقبروں والوں سے استغاثہ اورمدد مانگنا بنائے تواس کا یہ قصد ممنوع ہے اوریہ سفرجائز نہيں اوراس کا یہ فعل بھی برائي میں شامل ہے ۔
ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( تین مساجد : مسجد حرام ، اورمیری یہ مسجد ، اورمسجد اقصی کے علاوہ کسی اورجگہ کی زيارت کا قصد کرنا جائز نہيں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1189 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1397 ) ۔
اورجابررضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( بلاشبہ سب سے بہتر جن کی طرف سواریاں چلائي جاسکتی ہیں وہ میری یہ مسجد اوراللہ کا قدیم گھر بیت اللہ ہے ) مسند احمد ( 3 / 350 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے السلسلۃ الصحیحۃ ( 1648 ) میں اسے صحیح قراردیا ہے
3 - علماء کرام کے صحیح قول کے مطابق مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نماز کی ادائيگي کا اجروثواب کئي گنا حاصل ہوتا ہے چاہے نماز فرضي ہویا نفلی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( میری اس مسجد میں نماز کی ادائيگي مسجد حرام کے علاوہ باقی مساجد میں ہزار نماز کی ادائیگي سےبہتر ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1190 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1394 ) ۔
لیکن نفلی نماز مسجد کی بجائےگھرمیں افضل اوربہتر ہے اگرچہ مسجد میں کئي گنازيادہ بھی ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( بلاشبہ آدمی کی سب سےافضل نماز آدمی کی اپنے گھرمیں نماز ہے لیکن فرضی نماز نہيں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 731 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 781 ) ۔
4 - اس عظیم الشان مسجد کے زائرمحترم آپ کویہ علم ہونا چاہیے کہ مسجد کے کسی بھی حصہ مثلا ستونوں ، دیواروں ، دراوزوں ، محراب اورمنبر کوچھونے اوربوسہ لے کرتبرک حاصل کرنا جائزنہيں ، اوراسی طرح حجرہ نبویہ کوبھی چھونا اوراس کابوسہ لینا اورطواف کرنا جائزنہیں ، لھذہ جوکوئي بھی یہ کام کرے اس پراس کام سے توبہ کرنی اورآئندہ ایساکام نہ کرنے کا عھدکرنا واجب ہے ۔
5 - مسجد نبوی کی زيارت کرنے والے کےلیے ریاض الجنۃ میں دورکعت یا جتنی وہ چاہے نماز ادا کرنا مشروع ہے کیونکہ یہاں نماز کی ادائيگي کی فضیلت ثابت ہے :
ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( میرے گھر اورمنبرکے درمیان کا حصہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغیچہ ہے ، اورمیرا منبرمیرے حوض پرواقع ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1196 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1391 ) ۔
یزید بن ابی عبید بیان کرتے ہیں کہ میں سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی کے ساتھ آتا اوروہ مصحف والے ستون کے پاس یعنی روضہ شریف میں آ کرنماز ادا کرتے ، تومیں نے انہيں کہا اے ابومسلم میں دیکھتا ہوں کہ آپ اس ستون کے پاس ضرورنماز ادا کرتے ہیں ! تووہ فرمانے لگے :
میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا کہ آپ بھی یہاں خاص کرنماز ادا کیا کرتے تھے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 502 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 509 ) ۔
لیکن یہ یاد رکھیں کہ ریاض الجنۃ میں نماز ادا کرنے کی حرص کی بنا پرلوگوں کوتکلیف دینا یا پھر کمزوراورضعیف لوگوں کودھکے دینا یا لوگوں کی گردنیں پھلانگنا جائز نہيں ہوجاتا ۔
6 - مدینہ النبویہ کی زيارت کرنے اوروہاں کے رہائشی کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء وپیروی اوراتباع کرتے ہوئے عمرہ کا ثواب حاصل کرنے کے لیے مسجد قباء جاکرنماز ادا کرنی مشروع ہے ۔
سھل بن حنیف رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جوکوئي بھی نکل کراس مسجد ( یعنی مسجد قباء ) آتا اورنماز ادا کرتا ہے اسے عمرہ کے برابر ثواب حاصل ہوتا ہے ) اسے امام احمد نے مسند احمد ( 3 / 487 ) میں اورامام نسائی نے سنن نسائی ( 699 ) میں روایت کیا ہے ، اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح الترغیب ( 1180 - 1181 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
اورسنن ابن ماجہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( جس نے بھی اپنے گھر سے وضوء کیا اورپھر مسجد قباء آ کرنماز ادا کی اسے عمرہ کے برابر اجروثواب حاصل ہوتا ہے ) سنن ابن ماجۃ حدیث نمبر ( 1412 ) ۔
اورصحیحین میں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہرہفتہ کے دن پیدل یا سوار ہوکر مسجد قباء جایا کرتے اوروہاں دورکعت ادا کیا کرتے تھے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1191 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1399 ) ۔
7 - اے زائرمکرم ، مدینہ شریف کی ان دو مساجد مسجد نبوی اور مسجد قباء کے علاوہ کسی اورمسجد کی زيارت کرنا مشروع نہيں ہے ، اورنہ ہی زيارت کرنے والے یا کسی اورشخص کےلیے یہ مشروع ہے کہ وہ کسی خاص جگہ جانے کا قصد کرے اوراس میں خیروبھلائي اوروہاں جاکرعبادت کرنے کا مقصد رکھے ، جس کی کتاب وسنت میں کوئي دلیل نہيں ملتی اورنہ ہی صحابہ کرام رضي اللہ تعالی عہنم کے عمل سے ثابت ہو ۔
اورنہ ہی یہ مشروع ہے کہ ایسی جگہیں یا مساجد تلاش کی جائيں جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام نے نمازادا کی ہوتا کہ وہاں نماز ادا کرے یا دعاء وغیرہ کے ساتھ عبادت میں مشغول ہو ، اورایسا کرنے اوروہاں جانے کا حکم بھی نہيں ہے :
معرور بن سوید رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ : ہم عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ کے ساتھ نکلے توہمارے راستے میں ایک مسجدآئي تولوگوں نے اس کی جانب جلدی بڑھ کرنماز پڑھنا شروع کردی توعمررضي اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے :
انہيں کیا ہوا ؟ تولوگوں نے جواب دیا اس مسجد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی تھی توعمررضی اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے :
اے لوگویقینا تم سے پہلے لوگ بھی اس طرح کی اتباع کرتے ہوئے ہلاک ہوئے حتی کہ انہوں نے اسے عبادت گاہ بنالیا، لھذا جسے اس میں نماز پیش آجائے ( یعنی فرضي نماز کا وقت ہوجائے )وہ ادا کرے اورجس کے لیے نماز نہ آئے وہ چلتا رہے ) ۔ اسے ابن ابی شیبہ نے مصنف ابن ابی شیبہ ( 7550 ) میں روایت کیا ہے ۔
اورجب عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ کویہ بات پہنچی کہ کچھ لوگ اس درخت کے پاس جاتےہیں جس کے نیچے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت ہوئي تھی توانہوں نے اسے کاٹنے کا حکم دیا تواسے کاٹ دیا گيا ۔ اسے بھی ابن ابی شیبہ نے مصنف ابن ابی شیبہ میں روایت کیا ہے دیکھیں حدیث نمبر ( 7545 ) ۔
8 - مسجدنبوی شریف کے زائرین کرام میں سے صرف مردوں کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے دونوں صحابہ ابوبکراورعمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہما قبروں کی زيارت کرنا مشروع ہے تا کہ سلام پڑھیں اوران کےلیے دعا کریں ، لیکن علماء کرام کے صحیح قول کے مطابق عورتوں کےلیے قبروں کی زيارت کرنا جائزنہيں ہے جس کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے :
ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زيارت کرنے والی عورتوں پرلعنت فرمائی ہے ۔
سنن ابوداود حدیث نمبر ( 3236 ) سنن ترمذي حدیث نمبر ( 320 ) سنن ابن ماجۃ حدیث نمبر ( 1575 ) ۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اصلاح المساجد میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرت سے قبروں کی زيارت کرنےوالی عورتوں پرلعنت فرمائي ہے ۔
سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1056 ) امام ترمذی نے اسے حسن صحیح کہا ہے ، اورامام احمد رحمہ اللہ تعالی نے مسند احمد ( 2 / 337 ) میں اورابن ماجہ نے سنن ابن ماجۃ ( 1574 ) میں روایت کیا ہے اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سنن ترمذی ( 843 ) اورمشکاۃ المصابیح ( 1770 )میں اسےحسن کہا ہے ۔
اورزیارت کا طریقہ یہ ہے کہ زیارت کرنےوالا شخص قبرشریف کے پاس آئے اورقبرکی جانب رخ کرکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوسلام کہے : السلام علیک یارسول اللہ ، پھر ان کی دائيں جانب تقریبادوفٹ آگے بڑھ کرابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ پربھی سلام کہتے ہوئے اسلام علیک یاابابکر کہے ، اورپھران کی دائيں جانب تقریبا دوفٹ آگے بڑھے اورعمرفاروق رضي اللہ تعالی عنہ پرسلام پڑھے اورالسلام علیک یا عمر کہے ۔
9 - مدینہ شریف کے مرد زائرین کےلیے بقیع قبرستان اورشھدائے احد کی قبروں کی زيارت کرنا بھی مشروع ہے وہ وہاں جاکرانہیں سلام کرے اوران کےلیے دعائے مغفرت کرے ۔
بریدہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب وہ لوگ قبرستان جایا کرتےتھے تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں قبرستان جانے کی مندرجہ ذیل دعا سکھایا کرتے تھے کہ وہ وہاں جاکریہ دعا پڑھا کریں :
( السلام عليكم أهل الديار من المؤمنين والمسلمين ، وإنا إن شاء الله بكم لاحقون ، نسأل الله لنا ولكم العافية ) اے اس گھر والے مومنوں اورمسلمانو! تم پرسلامتی ہو ، اورہم ان شاء اللہ تمہیں ملنےوالے ہيں ، ہم اپنے اورتمہارے لیے عافیت کا سوال کرتے ہیں ۔ دیکھیں : صحیح مسلم حدیث نمبر ( 974 - 975 ) ۔
10 - قبروں کی زيارت کے بہت ہی دوعظیم مقصدہیں اورانہیں مقاصد کےلیے اسے مشروع کیا گيا ہے :
پہلامقصد : زائر اس سے عبرت اورنصیحت حاصل کرے ۔
دوسرا مقصد : جن قبروالوں کی زيارت کی جارہی ہے ان کے لیے دعائے استغفار اوران کی رحم کی دعا کرنا ۔
قبروں کی زيارت کے جواز میں شرط یہ ہے کہ غلط اورقبیح قسم کی گفتگونہ کی جائے جس میں سب سے شرکیہ یا کفریہ کلمات وگفتگو ہیں :
بریدہ رضي اللہ تعالی اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( میں نے تمہيں قبرستان کی زيارت کرنے سے منع فرمایا تھا ، توجوکوئي بھی قبروں کي زيارت کرنا چاہے وہ زيارت کرلیا کرے لیکن غلط اورقبیح قسم کی گفتگو نہ کیا کرو ) سنن نسائي حدیث نمبر ( 2033 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے السلسلۃ الصحیحۃ حدیث نمبر ( 886 ) میں اسے صحیح قراردیا ہے ۔
اورامام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے ( اورغلط وقبیح گفتگونہ کیا کرو ) کے الفاظ کے بغیر روایت کیا ہے دیکھیں صحیح مسلم حدیث نمبر ( 977 ) ۔
لھذا ان اوراس کے علاوہ دوسری قبروں کا طواف کرنا جائز نہيں اورنہ ہی ان کی جانب منہ کرکے اورنہ ہی قبروں کے مابین نماز ادا کرنا جائز ہے ، اوراسی طرح قبرکے پاس قرآن مجید کی تلاوت یا دعاء وغیرہ جیسی عبادت کرنا بھی جائز نہيں کیونکہ یہ سب کچھ اللہ مالک الملک جوافلاک اورسب املاک کا رب ہے کے ساتھ شرک کے وسائل اورانہیں مساجد کا درجہ دینے میں سے ہے اگرچہ ان پرمسجدنہ بھی تعمیر کی جائے ۔
عائشہ اورعبداللہ بن عباس رضي اللہ تعالی عنہم بیان کرتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوموت نے آگھیرا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چہرہ انور پرکپڑا ڈالنے لگے اورجب انہیں گھٹن محسوس ہوئي توآپ نے اپنے چہرے سے کپڑا ہٹایا اوراسی حالت میں فرمانے لگے :
( اللہ تعالی یھودیوں اورعیسائیوں پرلعنت کرے انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کومسجدیں بنالیا تھا ) وہ اس چيز سے ڈرا رہے تھے جس انہوں نے ارتکاب کیا تھا ۔صحیح بخاری حدیث نمبر ( 436 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 529 ) ۔
اورایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( یقینا لوگوں میں سب سے برے اورشریر وہ لوگ ہیں جنہیں زندگي کی حالت میں ہی قیامت آدبوچے گی اوروہ لوگ بھی جنہوں نے قبروں کومسجدیں بنا لیا ) اسے مسند احمد نے روایت کیا ہے دیکھیں مسند احمد ( 1 / 405 ) اوربخاری نے اسے تعلیقا روایت کیا ہے دیکھیں : صحیح بخاری کتاب الفتن باب ظہورالفتن حدیث نمبر ( 7067 ) اورصحیح مسلم کتاب الفتن باب قرب الساعۃ حدیث نمبر ( 2949 ) لیکن اس میں قبروں کومسجدیں بنانے کا ذکر نہيں ہے ۔
ابومرثد غنوی رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا :
( قبروں پرنہ بیٹھا کرو اورنہ ہی ان کی جانب رخ کرکےنماز ادا کیا کرو ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 972 ) ۔
اورابوسعید خدری رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( قبرستان اوربیت الخلاء کے علاوہ ساری روئے زمین مسجد ہے ) مسند احمد ( 3 / 83 ) سنن ترمذي حدیث نمبر ( 317 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ارواء الغلیل ( 1 / 320 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
اورانس رضي اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کے مابین نماز ادا کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ دیکھیں : ابن حبان حدیث نمبر ( 1698 ) ھیتمی رحمہ اللہ نے مجمع الزوائد ( 2 / 27 ) میں کہا ہے کہ اس رجال صحیح کے رجال ہیں ۔
اورقبروں پرسجدہ کرنا جائزنہيں بلکہ یہ کام توجاھلیت کی بت پرستی ، اورفکری شذوذ ، کم عقلی میں شامل ہوتا ہے ، اسی طرح ان قبروں کی زیارت کرنے والے اورکسی دوسرے شخص کےلیے یہ بھی جائز نہيں کہ وہ ان کے ساتھ اپنے جسم کا کوئي حصہ یا کپڑے وغیرہ لگا کریا اسے چوم کراوراسے ہاتھ پھیرکر تبرک حاصل کرے ، یاپھر قبرکی مٹی پرلوٹ پوٹ ہوکرشفایابی چاہتا ہو یا وہاں سے کچھ حاصل کرکے اس سے غسل کرے یہ سب کچھ ناجائز ہے ۔
اسی طرح قبروں کی زيارت کرنے والے یا کسی دوسرے شخص کے لیے یہ بھی جائزنہيں کہ اس قبر کی مٹی میں وہ اپنے بال یا بدن کی کوئي چيزیا پھر کپڑا وغیرہ دفن کرے یا پھر وہاں اپنی تصویر وغیرہ رکھ تبرک حاصل کرے ، اوراسی طرح وہاں پیسے یا کھانے کی کوئي چيز مثلا دانے وغیرہ بھی پھینکنا صحیح نہيں ہے ، لھذا جوشخص بھی ان افعال میں کوئي بھی فعل کرے اس پرایسے عمل سے توبہ واستغفار کرنی اورآئندہ ایسا کام نہ کرنے کا عھد کرنا واجب ہے ۔
اوراسی طرح قبرکوخوشبولگانا بھی ناجائزہے ، اوراللہ تعالی کوقبروں والوں کی قسم دینا ، اوراللہ سبحانہ وتعالی سے ان قبروں والوں کے واسطہ اوران کے شرف ومرتبہ کے ذریعہ سوال کرنا جائز نہيں ، بلکہ یہ توحرام توسل وسیلہ اورشرکیہ وسائل میں شامل ہوتا ہے ۔
اسی طرح قبروں کواونچا اورپختہ بنانا اوران پرعمارت تعمیر کرنا بھی جائز نہيں ، کیونکہ یہ قبروں کی تعظیم اوراس کی وجہ سے فتنہ وفساد میں پڑنے کا وسیلہ ہے ، اوراسی طرح اگرکسی شخص کے بارہ میں یہ معلوم ہوجائے کہ وہ یہ مخالفات کا ارتکاب کرے گا تواس شخص کوان مخالفات میں استعمال ہونے والی اشیاء مثلا کھانا ، خوشبووغیرہ کی فروخت ناجائز ہے ۔
اسی طرح فوت شدگان سے استغاثہ ومدد یا ان سے استعانت وتعاون مانگنا یا فقروفاقہ اورشدیدتکلیف اورمصائب میں ان سے سوال کرنا ، اوران سے نفع وحاجات طلب کرنا یہ سب کچھ شرک اکبر مخرج عن الملۃ ہے جودائرہ اسلام سے خارج کرکے بت پرستوں میں شامل کردیتا ہے ، کیونکہ مصیبتوں سے نجات دلانے والا ، غموں کودورکرنےوالا اورفکروں سے نجات دینے والا توصرف اورصرف اللہ وحدہ لاشریک ہے :
اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے :
یہی ہے اللہ جوتم سب کا پروردگار ہے اسی کی سلطنت وبادشاھی ہے ، جنہیں تم اللہ سبحانہ وتعالی کے علاوہ پکاررہے ہو وہ توکھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہيں ، اگر تم انہیں پکارو تووہ تمہاری پکارسنتے ہی نہیں ، اوراگر ( بالفرض ) سن بھی لیں توفریاد رسی نہيں کرسکتے ، بلکہ روز قیامت تووہ تمہارےاس شرک کا صاف انکارکرجائيں گے ، اورآپ کوکوئي بھی حق تعالی جیسا خبردارخبریں نہيں دے گا فاطر ( 13 - 14 ) ۔
اوراللہ جل جلالہ ایک دوسرے مقام پرکچھ اس طرح ارشاد فرماتے ہيں :
کہہ دیجئے کہ اللہ تعالی کے سوا جنہیں تم معبود سجمھ رہے ہو انہيں پکارو لیکن نہ تووہ تم سے کسی تکلیف کودور کرسکتے ہیں ، اورنہ ہی بدل سکتے ہیں ، جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں خود وہ اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں کہ ان میں سے کون زيادہ نزدیک ہوجائے وہ خود اس کی رحمت کی امید رکھتے اوراس کے عذاب سے خوفزدہ رہتے ہیں ( بات بھی یہی ہے ) کہ تیرے رب کا عذاب ڈرنے کی ہی چيز ہے الاسراء ( 56 - 57 ) ۔ .