جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

جب قییء غالب ہواوربغیر ارادہ وقصد کے کچھ معدہ میں واپس چلی جائے توروزہ فاسد نہیں ہوتا

سوال

میں حمل کے دوسرے ماہ میں ہوں اور رمضان المبارک میں مجھے قییء آتی ہے رہتی اوربعض اوقات تو مغرب سے تھوڑی دیر قبل آتی ہے ، اوربعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ حلق تک آپہنچی ہے اس کا حکم کیا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول :

امام خطابی اورابن المنذر رحمہ اللہ تعالی نے ذکر کیا ہے کہ :

علماء کرام کا اس میں کوئي اختلاف نہیں کہ جان بوجھ کریعنی عمدا قییء کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ، اوریہ کہ اگر قییء غالب آجائے ( یعنی خود بخود ہی آئے ) تو اس سےروزہ فاسد نہيں ہوتا ۔

دیکھیں : المغنی لابن قدامہ المقدسی ( 4 / 368 ) ۔

اس کی دلیل سنت نبویہ میں پائي جاتی ہے امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جس پر قیيء غالب آجائے ( یعنی خود آئے ) اس پر قضاء نہيں ، اورجوجان بوجھ کرعمدا قیيء کرے اسے قضاء کرنا ہوگي )

سنن ترمذي حدیث نمبر ( 720 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی فتاوی میں کہتے ہیں :

قیيء کے بارہ میں یہ ہے کہ اگر عمدا قیيء کی جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا ، لیکن اگر خود بخود آئے تو روزہ نہيں ٹوٹے گا ۔ ا ھـ

دیکھیں مجموع الفتاوی الکبری ( 25 / 266 ) ۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی سے مندرجہ ذیل سوال کیا گيا :

جس شخص کوخود بخود ہی قییء آجائے کیا وہ اس دن کے روزہ کی قضاء کرے گا کہ نہيں ؟

شیخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :

اس پر قضاء نہيں ، لیکن اگر اس نے جان بوجھ کرقیيء توقضاء کرنا ہوگي ، اورمندجہ بالاسابقہ حدیث سے ہی استدلال کیا ہے ۔ اھـ

شیخ ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی سے مندرجہ ذيل سوال پوچھا گيا :

کیا رمضان المبارک میں قييء سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ؟

توشيخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :

اگرتوانسان نے عمداقیيء کی ہوتو اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ، لیکن اگر خود بخود ہی قیيء ہوجائے تو اس سے روزہ نہيں ٹوٹتا ، اس کی دلیل ابوھریرہ رضي اللہ تعالی کی حدیث ہے ، اوراوپربیان کی گئي حدیث ہی ذکر کی ہے ۔

اگرآپ کوخود بخود قييء آجائے توآپ کا روزہ نہيں ٹوٹے گا ، اوراگر انسان یہ محسوس کرے کہ اس کے معدہ میں گڑبڑ ہے اورہوسکتا ہے اس میں سے کچھ باہر نکل آئے توکیا ہم یہ کہيں گے کہ : آپ پرواجب ہے کہ اسے روکیں ؟ یا پھر اسے جذب کرلیں ؟ نہيں ، لیکن ہم یہ کہيں گے :

آپ ایک الگ اور درمیانہ موقف اختیار کریں ، نہ تو جان بوجھ کرقییء کریں اور نہ ہی اسے روکیں ، اس لیے کہ اگر جان بوجھ کرقییء کروگے توروزہ ٹوٹ جائے گا ، اوراگر اسے روکیں گے تو اس سے ضرر اورنقصان اٹھائیں گے ، اس لیے آپ اسے اس کی حالت پر چھوڑ دیں اگر توآپ کے بغیر کسی فعل اوردخل کے باہر نکل آئے توآپ کوکچھ نقصان نہيں اورنہ ہی اس سے روزہ ٹوٹے گا ۔ ا ھـ ۔ دیکھیں فتاوی الصیام صفحہ نمبر ( 231 ) ۔

دوم :

جب قیيء انسان کے بغیر قصدو ارادہ کے قیيء معدہ میں واپس آجائے تواس کا روزہ صحیح ہے ، اس لیے کہ ایسا اس کے اختیا کر بغیرہوا ہے ۔

اللجنۃ الدائمۃ ( مستقل فتوی کمیٹی ) سے مندرجہ ذيل سوال کیا گيا :

روزہ دار نے قیيء کی اوربغیر کسی عمد کے نگلنے کا حکم کیا ہے ؟

کمیٹی کا جواب تھا :

اگرتوجان بوجھ کرقیيء کی تواس کا روزہ فاسد ہوگیا ، لیکن اگر قیيء خود بخود ہی آجائے توروزہ فاسد نہیں ہوگا ، اوراسی طرح اگر اس نے جان بوجھ کر اسے نہيں نگلا توروزہ فاسد نہيں ہوگا ۔ اھـ

دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 10 / 254 ) ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب