الحمد للہ.
اول:
مسلمانوں كو دينى شعار اور عبادات ميں كسى بھى امت كى تقليد كرنے كى كوئى ضرورت و حاجت نہيں، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے دين مكل كرديا ہے، اور اپنى نعمت كو پورا كر ديا ہے، اور ہمارے ليے اسلام كے دين ہونے پر راضى ہو چكا ہے، فرمان بارى تعالى ہے:
آج ميں نے تمہارے ليے تمہارے دين كو كامل كر ديا ہے، اور تم پر اپنى نعمت كو پورا كر ديا ہے، اور تمہارے ليے اسلام كے دين ہونے پر راضى ہو گيا ہوں المآئدۃ ( 3 ).
اور پھر شريعت اسلاميہ نے مسلمانوں كو كفار اور خاص كر يہود و نصارى كى تقليد اور نقالى كرنے سے منع فرمايا ہے، اور يہ نہى سب امور ميں عام نہيں بلكہ يہ اس ميں ہے جب وہ ان كے دينى امور اور شعار ہوں اور ان كے خصائص ميں شامل ہوں جو ان كا امتياز ہو.
ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم ضرور بضرور اپنے سے پہلے لوگوں كى پيروى اور تقليد كروگے بالشت كے ساتھ بالشت اور ہاتھ كے ساتھ ہاتھ حتى كہ اگر وہ ضب ( گوہ ) كى بل ميں داخل ہوئے تو تم بھى جاؤگے ہم نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم يہود و نصارى ؟
تو آپ نے فرمايا: اور كون ؟ "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1397 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 4822 ).
اس حديث ميں يہود و نصارى كى تقليد اور نقالى كرنے سے منع فرمايا گيا ہے، اور ان كے طريقے پر چلنے والوں كى مذمت كى گئى ہے، اور شريعت نے اس نہى كى تاكيد اس طرح كى ہے كہ جو كوئى بھى ايسا كرتا ہے وہ انہى ميں سے ہے.
عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس كسى نے بھى كسى قوم كى مشابہت كى تو وہ انہى ميں سے ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 3512 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 2691 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس كى كم از كم حالت يہ ہے كہ ان كفار سے مشابہت كى حرمت كا تقاضا كرتى ہے، اگرچہ اس كا ظاہر ان سے مشابہت كرنے والے كے كفر كا متقاضى ہے "
ديكھيں: اقتضاء الصراط المستقيم ( 237 ).
كفار كى تقليد اور نقالى كرنے والا شخص نقص محسوس كرتا ہے، اور ہزيمت و كم ترى كو اپنے اوپر سجاتاہے، اسى ليے جسے وہ بڑا سمجھتا ہے اس كى تقليد كر كے اس نقص كو پورا كرنے كى كوشش كرتا ہے.
اگر يہ لوگ اسلامى قوانين اور اس كے احكام كى عظمت كو جان ليں، اور اس نام نہاد ترقى كى خرابى و فساد كو پہچان ليں جس كے پيچھے وہ بھاگتے پھرتے ہيں تو انہيں اپنى غلطى كا احساس ہو جائے اور انہيں علم ہو جائے كہ غلط كر رہے ہيں، اور انہوں نے كمال اور حق كو چھوڑ كر نقص اور فساد كى طرف جا رہے ہيں.
دوم:
تقليد اور نقالى كى وہ وجہيں جن سے ہميں روكا گيا ہے وہ بہت سارى ہيں:
شيخ صالح الفوزان كہتے ہيں:
وہ امور جن ميں كفار كى تقليد اور نقالى كى جا رہى ہے وہ بہت سارے ہيں، جن ميں عبادات كے امور ميں ان كى تقليد كى جا رہى ہے مثلا: قبروں كو پختہ كرنے اور ان پر تعمير كرنے، اور ان ميں غلو كرنے كے شركيہ امور ميں كفار كى تقليد كى جا رہى ہے.
حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اللہ تعالى يہود و نصارى پر لعنت كرے انہوں نے اپنے انبياء كى قبروں كو سجدہ گاہ بنا ليا تھا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 425 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 531 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ بھى بتايا كہ جب بھى ان ميں كوئى نيك و صالح شخص فوت ہو جاتا تو وہ اس كى قبر پر مسجد بنا ليتے، اور اس ميں تصويريں بنا ليتے، اور يہ لوگ برى ترين مخلوق ميں سے ہيں.
ديكھيں: صحيح بخارى حديث نمبر ( 417 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 528 ).
ان دنوں قبروں ميں غلو كى بنا پر شرك اكبر جيسا شنيع كام ہو رہا ہے، جو ہر خاص و عام كے علم ميں ہے، اور اس كا سبب يہود و نصارى كى تقليد اور نقالى كے سوا كچھ نہيں.
اور اسى طرح شركيہ اور بدعتى تہواروں ميں كفار كى تقليد اور نقالى كى جا رہى ہے مثلا: عيد ميلاد ـ جيسا كہ عيد ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم ـ اور صدر اور بادشاہوں كى سالگرہ، ان تہواروں كو بدعتى يا شركيہ تہوار يا ہفتے كہا جاسكتا ہے ـ مثلا يوم آزادى، يوم والدہ، اور ہفتہ صفائى ـ اس كے علاوہ دوسرے يومى تہوار يا ہفتہ وار تہوار، يہ سب مسلمانوں ميں كفار كى جانب سے داخل ہوئے ہيں؛ وگرنہ اسلام ميں تو صرف دو ہى تہوار اور عيديں ہيں: عيد الفطر، اور عيد الاضحى، اس كے علاوہ باقى جتنى بھى عيديں اور تہوار ہيں وہ كفار كى تقليد اور نقالى ميں منائے جارہے ہيں.
ماخوذ از: كفار كى مخالفت كے عنوان سے خطبہ.
سوال نمبر (47060 ) كے جواب ميں لباس ميں كفار كى مشابہت كرنے كى ممانعت كے متعلق بيان ہو چكا ہے، كہ ان كے مخصوص لباس ميں مشابہت كرنا جائز نہيں، اور اسى طرح جو عادات ان كے ساتھ مخصوص ہيں مثلا داڑھى منڈانے ميں ان كى مشابہت كرنا.
سوم:
كفار كے ساتھ ان كى عبادات اور ان عادات ميں مشابہت كرنا حرام ہے جو ان كے ساتھ مخصوص ہيں، اور جن سے وہ ممتاز ہوتے ہيں، اس ميں نہيں جو انہوں نے اشياء ايجاد كى ہيں اور بناتے ہيں جن سے استفادہ كرنا ممكن ہے، اس طرح كى اشياء استعمال كرنے ميں مسلمانوں كو ان كے ساتھ شريك ہونے ميں كوئى حرج نہيں مثلا گاڑى استعمال كرنا اور بنانا، بلكہ مسلمانوں كو چاہيے كہ وہ اس ميں ان سے آگے بڑھيں اور اس ميں خود ايجاد كريں.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
جب " كفار كے ساتھ مشابہت " كہا جائے تو اس كا يہ معنى نہيں كہ ہم ان كى مصنوعہ اور ايجاد كردہ اشياء استعمال ہى نہ كريں: يہ بات تو كوئى بھى نہيں كہتا، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں بھى لوگ كفار كا تيار كردہ لباس پہنا كرتے تھے، اور اس كے بعد والے بھى اور ان كے بنائے ہوئے برتن بھى استعمال كرتے تھے.
كفار سے مشابہت كا معنى يہ ہے كہ:
ان جيسا لباس پہننا، اور ان جيسى عادات و سكنات اختيار كرنا، اس كا معنى يہ نہيں كہ ہم اس ميں سوارى نہ كريں جس ميں وہ سوارى كرتے ہيں، اور وہ لباس پہنتے ہيں تو ہم لباس نہ پہنيں، ليكن اگر وہ كسى مخصوص طريقہ سے سوار ہوتے ہوں جو ان كے ليے خاص اور معين ہے تو ہم اس طريقہ سے سوار نہيں ہونگے، اور جب وہ كسى خاص طريقہ سے لباس سلواتے ہوں جو ان كے ساتھ ہى مخصوص ہے تو ہم اس طرح كا لباس نہيں سلوائينگے، اگرچہ ہم اس گاڑى پر سوارى كرتے ہيں جس طرح كى گاڑى پر وہ سوارى كرتے ہيں، اور بالكل اسى طرح كے بنے ہوئے كپڑے سلواتے اور جس چيز سے ان كا كپڑا بنا ہوتا ہے.
ديكھيں: مجموع الفتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 12 ) سوال نمبر ( 177 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:
" مشابہت كا مقياس اور پيمانہ يہ ہے كہ مشابہت كرنے والا شخص ايسى چيز ميں مشابہت اختيار كرے جس سے مشابہت كى جا رہى ہے وہ اس كے ساتھ مخصوص ہو، اس ليے كفار سے مشابہت كا معنى يہ ہو گا كہ:
مسلمان كوئى ايسا كام كرے جو كفار كے ساتھ مخصوص ہو ليكن جو مسلمانوں ميں منتشر ہو اور اس كے ساتھ كفار كا امتياز نہ ہوتا ہو تو يہ مشابہت نہيں ہو گى، تو يہ مشابہت كى بنا پر حرام نہيں ہو گى، الا يہ كہ وہ كسى دوسرى وجہ سے حرام ہو، ہم نے بات كہى ہے وہ اس كلمہ كے مدلول كا متقاضى ہے.
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 12 ) سوال نمبر ( 198 ).
سوال نمبر ( 21694 ) كے جواب ميں آپ كو كفار سے مشابہت كى تفصيل اور اس كے ضوابط ملينگے، اور اسى طرح اس كى تفصيل آپ سوال نمبر ( 43160 ) كے جواب ميں بھى ديكھ سكتے ہيں.
چہارم:
غير مسلمين كى ترقى و تمدن نافع بھى ہے اور نقصاندہ بھى، اس ليے فائدہ مند كو چھوڑ كر نقصاندہ كو نہيں لينگے، اس موقف كو اختصاركے ساتھ بيان كرتے ہوئے شنقيطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" مغربى تہذيب و تمدن اور ترقى كے متعلق موقف چار قسموں ميں منحصر ہے اس كى كوئى پانچويں قسم نہيں:
اول:
نافع اور نقصاندہ دونوں كو چھوڑنا.
دوم:
نافع اور نقصاندہ دونوں كو لينا.
سوم:
نفع مند كو چھوڑ كر نقصاندہ كو لينا.
چہارم:
نقصاندہ كو چھوڑ كر نفع مند كو لينا.
بلاشك و شبہ پہلى تين قسموں كو ہم باطل پاتے ہيں، اور بغير كسى شك و شبہ كے ايك جو كہ آخرى قسم ہے وہ صحيح ہے.
ديكھيں: اضواء البيان ( 4 / 382 ).
پنجم:
رہا عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كا قول:
" جسے مسلمان حسن اور اچھا سمجھتے ہيں وہ اللہ كے ہاں اچھا اور حسن ہے "
اس سے وہ عقلى تحسين مراد نہيں جو شريعت كے مخالف ہو، امام شافعى رحمہ اللہ كا قول ہے:
" جس نے استحسان كيا تو اس نے قانون بنايا "
اس سے وہ تحسين مراد نہيں جسے لوگوں ميں كوئى ايك شخص اچھا سمجھے عام لوگوں كے علاوہ، بلكہ اس كلام كو دو معنوں ميں سے ايك پر محمول كرنا صحيح ہے، اور وہ دونوں ہى صحيح ہيں:
1 - اس سے مراد عرف كا وہ عمل ہے جو شريعت كے مخالف نہ ہو.
2 - اس سے حجيت اجماع مراد ہے.
چنانچہ جب مسلمان كسى چيز كے استحسان پر جمع ہو جائيں تو يہ اجماع حجت ہے، تو يہ چيز اللہ كے حكم ميں حسن اور اچھى ہو گى، اور يہ چيز اس قول پر دلالت كر سكتى ہے:
" جسے مسلمان اچھے ديكھيں تو وہ اللہ كے اچھا ہے "
ديكھيں: المبسوط للسرخسى ( 12 / 138 ) اور الفروسيۃ ابن قيم ( 398 ).
يہ تو اس وقت ہے جب ہم ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ كى كلام سب مسلمانوں ميں عام شمار كريں، حالانكہ ان كى كلام كے سياق و سباق سے پتہ چلتا ہے كہ انہوں نے اس سے صحابہ كرام مراد ليے ہيں ان كے علاوہ دوسرے لوگ نہيں، ان كى كلام بالنص يہ ہے:
" اللہ سبحانہ و تعالى نے بندوں كے دلوں كو ديكھا تو ان ميں محمد صلى اللہ عليہ وسلم كا دل سب سے بہتر پايا تو اسے اپنے ليے چن ليا، اور انہيں اپنى رسالت دے كر مبعوث كيا، پھر محمد صلى اللہ عليہ وسلم كے دل كے بعد بندوں كے دلوں كو ديكھا تو محمد صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كے دلوں بندوں كے دلوں سے سب سے بہتر پايا تو انہيں اپنے نبى كے وزير بنا ديا وہ اس كے دين پر جہاد كرتے ہيں، چنانچہ جو مسلمانوں نے حسن ديكھا تو وہ اللہ كے ہاں اچھا اور حسن ہے، اور جسے وہ برا ديكھيں تو وہ اللہ كے ہاں برا ہے "
مسند احمد حديث نمبر ( 3418 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے عقيدۃ طحاويۃ كى تخريج ( 530 ) ميں اسے حسن كہا ہے.
كسى بھى حال ميں ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كى كلام سے اللہ تعالى كى حرام كردہ چيز كو حسن اور اچھا جاننے ميں استدلال كرنا صحيح نہيں، مثلا مشركوں سے مشابہت كرنا.
واللہ اعلم .