اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

رمضان ميں لڑكى سے مذاق كيا اور بطور تاديب روزہ توڑ ديا

سوال

ميں يورپ ميں تقريبا سولہ برس رہائش پذير رہا اور يونيورسٹى كى تعليم مكمل كى جبكہ ميرى عمر بائيس برس تھى، ايك بار رمضان المبارك ميں اچانك ميرى ہوسٹل كى راہدارى ميں لڑكى سے ملاقات ہوئى جہاں لڑكے اور لڑكيا اكٹھى رہتے ہيں، اور ميں روزے سے تھا، ليكن شيطان نے مجھے ورغلايا اور ميں نے اس لڑكى سے مذاق اور خوشطبعى اور بوسہ وغيرہ لينا شروع كر ديا ليكن پھر اس سے رك گيا اور اپنے كيے پر نادم ہو كر اپنے كمرہ ميں چلا گيا اور اپنے آپ سے كہنے لگا:
ميں مسلمان ہو كر اور پھر رمضان ميں ايسا كام كرتا پھرتا ہوں، مجھے كوئى حق نہيں كہ ان مخلص قسم كے داعى حضرات سے تعلق ركھوں جن كے ساتھ ميرى روزانہ ملاقات ہوتى ہے، مجھے اس خير كا كوئى حق حاصل نہيں اور ميں نے اس فعل كى بنا پر روزہ توڑ ليا، ہو سكتا ہے مذى كى بنا پر ميں نے غسل بھى كرنا تھا، اور پھر ميں اپنے آپ سے انتقام ليتے ہوئے اس دن كا روزہ توڑ ديا اور پانى پى ليا.... اللہ تعالى آپ كو بركت سے نوازے مجھے بتائيں كہ مجھ پر كيا واجب ہوتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

آپ كے ساتھ جو كچھ پيش آيا وہ كفريہ ملك ميں رہائش اختيار كرنے اور لڑكے اور لڑكيوں كى مختلط تعليم كا نتيجہ ہے، اسى ليے علماء كرام نے اس سے بہت زيادہ اجتناب كرنے كا كہا ہے، ہم اللہ كا شكر ادا كرتے ہيں كہ اس نے اس سے بھى بڑھے كام ميں پڑنے سے آپ كو محفوظ ركھا.

آپ نے اس دن كا روزہ توڑ كر بہت بڑى غلطى كى، آپ كو چاہيے تھا كہ اس لڑكى كے ساتھ جو كچھ كيا اللہ تعالى كے حضور اس سے توبہ كرتے اور اپنا روزہ جارى ركھتے.

آپ كو علم ہونا چاہيے كہ خير اور نيكى سے روكنے كے ليے شيطان كا سب سے بڑا وسيلہ اور طريقہ يہ ہے كہ وہ آپ كو اچھے اور صالح دوست و احباب سے روك دے، يا پھر بھلائى اور نيكى كے كام نہ كرنے دے اور اس كى دليل يہ ہو كہ آپ اس كے اہل نہيں ہيں.

اور اس نيكى اور بھلائى كے عمل اور اچھے لوگوں سے دورى كا نتيجہ اس گناہ سے بھى زيادہ بڑا ہو گا جس كى بنا پر آپ اس سے دور ہوئے ہيں، اس ليے عقلمند وہ ہے جو معصيت و گناہ سے رك جائے تا كہ وہ اسے دوسرى معصيت اور گناہ ميں نہ دھكيل دے، بلكہ اسے جتنى بھى جلدى ہو سكے اس سے توبہ كرنى چاہيے، اور اسے زيادہ سے زيادہ خيروبھلائى كے كام كرنے چاہيے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

يقينا نيكياں اور اچھے كام برائيوں اور معصيت كو ختم كر ڈالتى ہيں.

اور مذى نكلنے كے بارہ ميں عرض يہ ہے كہ علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق مذى خارج ہونے سے روزہ باطل نہيں ہوتا، امام ابو حنيفہ، امام شافعى رحمہم اللہ كا مسلك يہى ہے، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى نے بھى اسے اختيار كيا ہے.

ديكھيں: المغنى ( 3 / 20 ) الاختيارات الفقھيۃ ( 97 ).

مزيد تفصيل كے ليے سوال نمبر ( 38074 ) اور ( 49752 ) كا جواب ضرور ديكھيں.

حالانكہ آپ كو مذى نكلنے كا يقين بھى نہيں تھا.

اور پھر مذى ميں غسل لازم نہيں ہوتا، بلكہ وہ نجس ہے جس سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے، صرف آپ كے ليے اتنا كافى تھا كہ آپ اس جگہ كو دھو ڈالتے، اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 34172 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

آپ پر اس دن كے روزے كى قضاء ميں روزہ ركھنا واجب ہے، اور اس كے ساتھ توبہ بھى كريں، اور مغلظ كفارہ لازم نہيں آتا، كيونكہ راجح قول كے مطابق يہ وطئى اور جماع كے ساتھ مختص ہے، جيسا كہ امام شافعى اور احمد رحمہم اللہ كا مسلك يہى ہے.

ليكن اگر آپ نے اس دن كى قضاء ميں تاخير كردى اور دوسرا رمضان آگيا تو تاخير كى بنا پر آپ پر قضاء كے ساتھ كفارہ بھى ہو گا، جو كہ ايك مسكين كو نصف صاع تقريبا ڈيڑھ كلو غلہ دينا ہے، اس كى مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 38867 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب