الحمد للہ.
سوال كرنے والے كو شك ہے كہ آيا يہ منى ہے يا مذى.
منى اور مذى ميں فرق يہ ہے كہ: مرد كا مادہ منويہ سفيد اور گاڑھا، اور عورت كا پتلا اور زرد ہوتا ہے، ليكن مذى خوشطبعى كرتے يا جماع كا سوچتے يا ارادہ كرتے يا ديكھتے وقت پتلا اور ليس دار سفيد مادہ نكلتا ہے، اور اس ميں مرد و عورت مشترك ہيں. اھـ
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 418 ).
غالبا يہى ہے كہ آپ سے جو خارج ہوا ہے وہ مذى ہے نہ كہ مادہ منويہ كيونكہ منى اچھل كر نكلتى ہے اور مرد كو اس كا احساس بھى ہوتا ہے.
اور منى نكلنے كا باعث روزہ كو توڑنے كا باعث ہے جيسا كہ اگر كوئى شخص جماع كرے يا بوسہ لے يا مباشرت كرے يا پھر عورتوں كو بار بار ديكھے اور اس كى منى خارج ہو جائے تو اس كا روزہ فاسد ہو جائے گا.
اس كى مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 2571 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
اور اگر وہ مذى كے اخراج كا سبب پيدا كرے اور مذى خارج ہو جائے تو اس سے روزہ ٹوٹنے ميں علماء كرام كا اختلاف ہے.
حنابلہ كا مذہب ہے كہ اگر مذى نكلنے كا سبب مباشرت مثلا ہاتھ سے چھونا، يا بوسہ لينا وغيرہ ہو تو اس سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے.
اور اگر مذى كے خروج كا سبب بار بار ديكھنا ہو تو اس سے روزہ نہيں ٹوٹتا.
اور امام ابو حنيفہ اور امام شافعى رحمہما اللہ تعالى كا مسلك يہ ہے كہ اس سے مطلقا روزہ نہيں ٹوٹتا چاہے مباشرت سے مذى آئے يا كسى اور طريقہ سے، بلكہ روزہ منى سے ٹوٹتا ہے نہ كہ مذى سے.
ديكھيں: المغنى لابن قدامہ المقدسى ( 4 / 363 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى " الشرح الممتع " ميں اس مسئلہ ميں حنابلہ كا مسلك ذكر كرنے كے بعد كہتے ہيں:
" اور اس كى كوئى صحيح دليل نہيں، كيونكہ مذى منى سے كم ہے، نہ تو شھوت كے اعتبار سے اور نہ ہى بدن كے انحلال كے اعبتار سے، لہذا مذى كو منى كے ساتھ ملانا ممكن نہيں ہے"
اور صحيح يہ ہے كہ اگر اس نے مباشرت كى اور مذى خارج ہو گئى يا مشت زنى كى اور مذى خارج ہو گئى تو اس كا روزہ نہيں ٹوٹا، اور اس كا روزہ صحيح ہے، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى نے بھى اسے اختيار كيا ہے اور اس كى دليل يہ ہے كہ اس كى دليل نہيں ملتى ( يعنى مذى كے خارج ہونے سے روزہ ٹوٹنے كى دليل نہيں ملتى ) كيونكہ يہ روزہ عبادت ہے جسے انسان نے شرعى طريقہ كے ساتھ شروع كيا ہے، لہذا اس عبادت كو بغير كسى دليل كے فاسد كرنا ممكن نہيں ہے" اھـ
ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 236 ).
اور مشت زنى كى تو مذى خارج ہو گئى كا معنى يہ ہے كہ: اس نے منى نكالنے كى كوشش كى ليكن منى خارج نہ ہوئى بلكہ مذى نكل آئى.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
جب انسان روزے كى حالت ميں بوسہ لے يا گندى اور بے ہودہ مخرب الاخلاق فلميں ديكھيں اور اس كى مذى خارج ہو جائے تو كيا وہ روزے كى قضاء كرے گا ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق مذى خارج ہونےسے روزہ نہيں ٹوٹتا، چاہے بيوى كا بوسہ لينے يا فلميں ديكھنے يا شھوت انگيزى كے كسى دوسرے كام كى بنا پر مذى خارج ہو، ليكن مسلمان شخص كے شايان شان اور اس كے ليے جائز نہيں كہ وہ گندى اور مخرب الاخلاق فلموں كا مشاہدہ كرے اور حرام كردہ گانے اور موسيقى وغيرہ سنے.
ليكن شھوت كى ساتھ منى خارج ہونے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، چاہے يہ مباشرت يا بوسہ لينے يا بار بار ديكھنے يا شھوت كے دوسرے اسباب مثلا مشت زنى وغيرہ سے منى خارج ہو، اور رہا احتلام اور سوچ تو اس سے روزہ باطل نہيں ہوتا چاہے منى بھى خارج ہو جائے. اھـ
ديكھيں فتاوى ابن باز ( 15 / 267 ).
مستقل فتوى كميٹى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
رمضان المبارك ميں ايك دن بيٹھا ہوا تھا اور ميرے ساتھ ہى بيوى بھى تھى اور ہم روزے كى حالت ميں تھے تقريبا آدھ گھنٹہ ہم ايك دوسرے سے ہنسى مذاق كرتے رہے اور جب ميں اس سے دور ہٹا تو ميرى سلوار گيلى تھى اور ميں نے پھر دوبارہ بھى ايسا كيا گزارش ہے كہ آيا ميرے ذمہ كفارہ ہے ؟
كميٹى كا جواب تھا:
اگر تو واقعتا ايسا ہى ہے جيسا آپ بيان كر رہے ہيں تو اصل كو مدنظر ركھتے ہوئے نہ آپ پر قضاء ہے اور نہ ہى كفارہ، ليكن اگر يہ ثابت ہو جائے كہ وہ نمى منى تھى تو پھر آپ پر غسل اور قضاء ہے، كفارہ نہيں. اھـ
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمہ للبحوث العلميہ والافتاء ( 10 / 273 ).
حاصل يہ ہوا كہ: آپ كو كچھ لازم نہيں آتا اور آپ كا روزہ صحيح ہے حتى كہ آپ كو يہ يقين ہو جائے كہ آپ كى منى خارج ہوئى ہے، اور اگر منى ہو تو پھر آپ پر اس دن كے روزہ كى قضاء ہے كفارہ نہيں.
اور آپ كو بغير كسى ضرورت كے عورتوں كے ساتھ بات چيت كرنے سے اجتناب كرنا چاہيے، اور اگر آپ كو ان سے بات چيت كرنے كى ضرورت بھى ہو تو آپ اللہ تعالى كے مندرجہ ذيل فرمان پر عمل كرتے ہوئے بات چيت كے وقت نظريں نيچى ركھيں:
فرمان بارى تعالى ہے:
مومنوں كو كہہ ديجيے كہ وہ اپنى نظريں نيچى ركھيں اور اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كريں، يہ ان كے ليے زيادہ پاكيزگى كا باعث ہے، يقينا اللہ تعالى ان كے عملوں كى خبر ركھنے والا ہے النور ( 30 ).
امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے صحيح مسلم ميں جرير بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى سے حديث بيان كى ہے:
وہ بيان كرتے ہيں كہ: ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اچانك نظر پڑ جانے كے متعلق دريافت كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مجھے اپنى نظر پھيرنے كا حكم ديا"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2159 ).
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
( الفجاءۃ ) اچانك ہے،اور اس كا معنى يہ ہے كہ كسى اجنبى عورت پر اچانك اور بغير ارادہ و قصد كے نظر پڑ جائے تو اس پر پہلى نظر پر اسے كوئى گناہ نہيں ہوگا، اور اس پر اسى وقت اپنى نظر كو دوسرى طرف پھيرنا واجب ہے، اگر وہ اسى وقت نظر پھير ليتا ہے تو اس پر كوئى گناہ نہيں، ليكن اگر وہ اسے ديكھتا ہى چلا جاتا ہے تو اس حديث كى بنا پر وہ گنہگار ہو گا، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے اس فرمان كى بنا پر نظر پھيرنے كا حكم ديا ہے كہ:
مومنوں كو كہہ ديں كہ وہ اپنى نظريں نيچى ركھيں . اھـ
اور اگر ممكن ہو سكے كہ عورتوں كے ساتھ خريدوفروخت كے معاملات كے ليے عورت كام كرے تو يہ زيادہ بہتر اور اچھا ہے.
واللہ اعلم .