اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

نماز عيدين كا حكم

سوال

نماز عيدين كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

نماز عيدين كے حكم ميں علماء كرام كے تين قول ہيں:

پہلا قول:

يہ سنت مؤكدہ ہے، امام مالك اور امام شافعى كا مسلك يہى ہے.

دوسرا قول:

يہ فرض كفايہ ہے، امام احمد رحمہ اللہ كا مسلك يہى ہے.

تيسرا قول:

يہ ہر مسلمان پر واجب ہے، لہذا ہر مرد پر واجب ہے، اور بغير كسى عذر كے ترك كرنے پر گنہگار ہو گا، امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ تعالى كا مسلك يہى ہے، اور امام احمد سے ايك روايت، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ اور شوكانى رحمہما اللہ نے اسى قول كو اختيار كيا ہے.

ديكھيں: المجموع ( 5 / 5 ) المغنى ( 3 / 253 ) الانصاف ( 5 / 316 ) الاختيارات ( 82 ).

تيسرے قول والوں نے كئى ايك دلائل سے استدلال كيا ہے، جن ميں چند ايك يہ ہيں:

1 - ارشاد بارى تعالى ہے:

اپنے رب كے ليے نماز ادا كرو، اور قربانى كرو الكوثر ( 2 ).

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى " المغنى " ميں كہتے ہيں:

اس كى تفسير ميں مشہور يہ ہے كہ: اس سے مراد نماز عيد ہے. اھـ

اور بعض علماء كرام كا كہنا ہے كہ: اس آيت سے مراد عمومى نماز مراد ہے، نہ كہ يہ نماز عيد كے ساتھ خاص ہے.

چنانچہ آيت كا معنى يہ ہوا كہ: نماز اور قربانى صرف اللہ وحدہ كے ليے ادا كرو، تو يہ بھى مندرجہ ذيل فرمان بارى تعالى كى طرح ہو گا:

كہہ ديجئے كہ ميرى نماز اور ميرى قربانى اور ميرا زندہ رہنا اور ميرا مرنا اللہ رب العالمين كے ليے ہے الانعام ( 162 ).

آيت كى تفسير ميں يہ قول ابن جرير اور ابن كثير رحمہما اللہ تعالى نے اختيار كيا ہے.

ديكھيں: تفسير ابن جرير ( 12 / 724 ) اور تفسير ابن كثير ( 8 / 502 ).

تو اس بنا پر اس آيت ميں نماز عيد كے وجوب پر كوئى دليل نہيں پائى جاتى.

2 - نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز عيد كے ليے عيدگاہ كى طرف نكلنے كا حكم ديا ہے، حتى كہ عورتوں كو بھى وہاں جانے كا حكم ديا.

امام بخارى اور امام مسلم رحمہما اللہ نے ام عطيہ رضى اللہ تعالى عنہا سے روايت كيا ہے كہ:

" ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عيد الفطر اور عيد الاضحى ميں ( عيد گاہ كى طرف ) نكلنے كا حكم ديا، اور قريب البلوغ اور حائضہ اور كنوارى عورتوں سب كو، ليكن حائضہ عورتيں نماز سے عليحدہ رہيں، اور وہ خير اور مسلمانوں كے ساتھ دعا ميں شريك ہوں, وہ كہتى ہيں ميں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: اگر ہم ميں سے كسى ايك كے پاس اوڑھنى نہ ہو تو ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اسے اس كى بہن اپنى اوڑھنى دے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 324 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 890 ).

العواتق: عاتق كى جمع ہے، اور اس كا معنى وہ لڑكى ہے جو قريب البلوغ ہو يا بالغ ہو چكى ہو، يا پھر شادى كے قابل ہو.

ذوات الخدور: كنوارى لڑكيوں كو كہتے ہيں.

اس حديث سے نماز عيد كے وجوب كا استدلال پہلى آيت سے زيادہ قوى ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى " مجموع الفتاوى" ميں كہتے ہيں:

" ميرے خيال ميں نماز عيد فرض عين ہے، اور مردوں كے ليے اسے ترك كرنا جائز نہيں، بلكہ انہيں نماز عيد كے ليے حاضر ہونا ضرورى ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قريب البلوغ اور كنوارى لڑكيوں اور باقى عورتوں كو بھى حاضر ہونے كا حكم ديا ہے، بلكہ حيض والى عورتوں كو بھى نماز عيد كے ليے نكلنے كا حكم ديا، ليكن وہ عيد گاہ سے دور رہيں گى، اور يہ اس كى تاكيد پر دلالت كرتا ہے" اھـ

ديكھيں: مجموع الفتاوى لابن عثيمين ( 16 / 214 ).

اور ايك دوسرى جگہ پر رقمطراز ہيں:

" دلائل سے جو ميرے نزديك راجح ہوتا ہے وہ يہ كہ نماز عيد فرض عين ہے، اور ہر مرد پر نماز عيد ميں حاضر ہونا واجب ہے، ليكن اگر كسى كے پاس عذر ہو تو پھر نہيں " اھـ

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 16 / 217 ).

اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى اس كے فرض عين ہونے كے متعلق كہتے ہيں:

دلائل ميں يہ قول ظاہر ہے، اور اقرب الى الصواب يہى ہے" اھـ

ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن باز ( 13 / 7 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب