سوموار 11 ربیع الثانی 1446 - 14 اکتوبر 2024
اردو

رمضان كا روزہ توڑنے كى قسم اٹھالى

سوال

اگر كوئى شخص رمضان كا روزہ توڑنے كى قسم اٹھا لے تو كيا حكم ہو گا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

رمضان المبارك كے روزے ہر عاقل بالغ اورمقيم اور روزہ ركھنے كى استطاعت ركھنے والے شخص پر فرض ہيں، اور جو شخص ايسا ہو اس كے ليے بغير كسى شرعى عذر كے روزہ نہ ركھنا حرام ہے، اور اسى طرح اس كے ليے روزہ توڑنے كى قسم اٹھانا بھى حرام ہے، كيونكہ اس كى قسم ميں حرام كام كا عزم اور تاكيد پائى جاتى ہے.

دوم:

جب كوئى مسلمان كسى معصيت و نافرمانى كے ارتكاب كى قسم اٹھائے تو اس كے ليے وہ معصيت و نافرمانى كا فعل كرنا جائز نہيں، بلكہ اسے اپنى قسم توڑنى واجب ہے، اور اسے چاہيے كہ وہ قسم كا كفارہ ادا كرے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے كسى كام كى قسم اٹھائى اور پھر وہ اس كے علاوہ كوئى اور اس سے بہتر اور اچھا ديكھے تو وہ اسے وہ بہتر اور اچھا كام كرنا چاہيے اور اپنى قسم كا كفارہ ادا كردے"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1650 ).

اور قسم كا كفارہ يہ ہے كہ: يا تو دس مسكينوں كو كھانا دے، يا انہيں لباس مہيا كرے، يا پھر ايك غلام آزاد كرے، اور جو كوئى ان تينوں ميں سے كوئى چيز نا پائے تو وہ تين روزے ركھے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اللہ تعالى تمہارى قسموں ميں لغو قسم پر تمہارا مؤاخذہ نہيں كرتا، ليكن اس پر مؤاخذہ فرماتا ہے كہ تم جن قسموں كو مضبوط كردو، اس كا كفارہ دس محتاجوں كو كھانا دينا ہے اوسط درجے كا جو اپنے گھروالوں كو كھلاتے ہو يا ان كو لباس دينا، يا ايك غلام يا لونڈى آزاد كرنا، ہے، اور جو كوئى نہ پائے تو وہ تين دن كے روزے ركھے، يہ تمہارى قسموں كا كفارہ ہے جب كہ تم قسم كھا لو، اور اپنى قسموں كا خيال ركھو! اسى طرح اللہ تعالى تمہارے واسطے اپنے احكام بيان فرماتا ہے تا كہ تم شكر كرو المآئدۃ ( 89 ).

آپ مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے سوال نمبر ( 45676 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

سوم:

اور جس نے بھى ايسا كيا ہو اسے اللہ تعالى كے سامنے توبہ و استغفار كرنى چاہيے، كيونكہ مسلمان شخص كے ليے يہ بہت ہى قبيح حركت ہے كہ وہ رمضان كا روزہ توڑنے كى قسم اٹھا لے، يہ تو اس بات كى دليل ہے كہ وہ اللہ تعالى كى حرمت كو توڑ رہا ہے، اور اس كى توہين كر رہا ہے، سوال نمبر ( 38747 ) كے جواب ميں رمضان المبارك كا روزہ بغير كسى شرعى عذر كے توڑنے كى خطرناكى بيان ہو چكى ہے، اور يہ كہ ايسا كرنے والے كے بارہ ميں نفاق كا گمان ہوتا ہے، اللہ اس سے بچا كر ركھے.

امام ذھبى رحمہ اللہ تعالى " الكبائر" ميں لكھتے ہيں:

" مومنوں كے ہاں يہ بات فيصلہ شدہ اورمقرر ہے كہ: جس شخص نے بھى بغير بيمارى اور غرض ( يعنى بغير شرعى عذر ) كے رمضان المبارك كا روزہ ترك كيا تو وہ شخص زانى اور شراب نوش سے بھى زيادہ شرير اور برا ہے، بلكہ اس كے اسلام ميں ہى شك كرتے ہيں، اور اس كے زنديق اور منحرف ہونے كا گمان كرتے ہيں " انتہى.

ديكھيں: الكبائر للذھبى ( 64 ).

اللہ تعالى سے ہم سلامتى و عافيت طلب اور دين اسلام پر ثابت قدمى طلب كرتے ہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب