جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

ميت كو غسل دينے والا خود بھى غسل كرے

سوال

كيا ميت كو غسل دينے والے كے ليے نماز جنازہ كى ادائيگى سے قبل لباس كى تبديلى يا غسل كرنا واجب ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اہل علم كے اقوال ميں سے صحيح قول يہى ہے كہ ميت كو غسل دينے كے بعد غسل كرنا مستحب ہے، واجب نہيں.

يہ قول ابن عباس، ابن عمر، اور ام المومنين عائشۃ رضى اللہ تعالى عنہم، اور حسن بصرى، ابراہيم نخعى، اور امام شافعى، امام احمد، اسحاق، اور ابوثور ابن منذر، اور اصحاب الرائے رحمہ اللہ تعالى عنہم كا ہے، اور ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى نے اسے ہى راحج قرار ديا ہے.

ديكھيں: سنن الترمذى ( 3 / 318 ) اور المغنى لابن قدامۃ المقدسى ( 1 / 134 ).

شيخ البانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اور ميت كو غسل دينے والے كے ليے غسل كرنا مستحب ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے ميت كو غسل ديا وہ غسل كرے، اورجس نے اسے اٹھايا وہ وضوء كرے"

ابو داود ( 2 / 62 - 63 ) سنن ترمذى ( 2 / 132 ).... اس كے بعض طرق حسن اور بعض صحيح اور مسلم كى شرط پر ہيں...

اور ابن قيم رحمہ اللہ تعالى نے " التھذيب السنن" ميں گيارہ طرق ذكر كرنے كے بعد كہا ہے: يہ سب طرق اس بات كى دليل ہيں كہ يہ حديث محفوظ ہے"

ميں كہتا ہوں:

ابن القطان نے اسے صحيح قرار ديا ہے، اور اسى طرح ابن حزم رحمہ اللہ تعالى نے بھى المحلى ( 1 / 250 ) اور ( 2 / 23 - 25 ) اور حافظ رحمہ اللہ تعالى نے " التلخيص" ( 2 / 134 طبع المنيريۃ ) ميں، اور ان كا كہنا ہے: اس كا كم از كم حال يہ ہے كہ يہ حسن ہو گى.

اور ظاہرى امر وجوب كا فائدہ دے رہا ہے، ليكن ہم دو موقوف حديثوں – جن كا حكم مرفوع جيسا ہے – كى بنا پر اس كے قائل نہيں:

پہلى حديث:

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" تم اپنى ميت كوغسل دو تو اس ميں تم پر غسل نہيں، كيونكہ تمہارى ميت نجس نہيں، تمہارے ليے صرف اتنا ہى كافى ہے كہ اپنے ہاتھ دھو لو"

اسے حاكم نے ( 1 / 386 ) اور بيھقى نے ( 3 / 398 ) روايت كيا ہے..

پھر ميرے نزديك راجح يہ ہے اور صحيح يہى ہے كہ يہ حديث موقوف ہے، جيسا كہ ميں سلسلۃ الضعيفۃ ( 6304 ) ميں تحقيق كے ساتھ بيان كيا ہے.

دوسرى حديث:

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كاقول ہے:

" ہم ميت كو غسل ديا كرتے تو ہم ميں سے كچھ غسل كرتے، اور كچھ غسل نہ كرتے تھے"

اسے دار قطنى ( 191 ) اور خطيب نے التاريخ ( 5 / 424 ) ميں صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے، جيسا كہ حافظ رحمہ اللہ تعالى كا كہنا ہے، اور امام احمد رحمہ اللہ تعالى نے بھى اس كى طرف اشارہ كيا ہے، اور خطيب رحمہ اللہ تعالى نے ان سے روايت كيا ہے كہ انہوں نے اپنے بيٹے كو اس حديث كے لكھنے پر ابھارا. اھـ

ديكھيں: احكام الجنائز للالبانى ( 71 - 72 ).

اور مستقل فتوى كيمٹى سعودى عرب اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى نے بھى اسے ہى راجح قرار ديا ہے.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 1 / 318 ) اور الشرح الممتع ( 1 / 295 ).

اور رہا مسئلہ لباس تبديل كرنے كا تو سنت نبويہ ميں اس كى كوئى دليل نہيں ملتى، نہ تو يہ واجب ہے، اور نہ ہى مستحب ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب