جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

باپ نے اپنے سودی بینک کے حصص بیٹی کو تحفہ میں دئیے، بیٹی اب ان کا کیا کرے؟

سوال

مجھے میرے والد نے بینک الریاض کے 50 حصص تحفے میں دئیے ہیں، اور میں جانتی ہوں کہ بینک الریاض سودی بینکوں میں سے ہے، میرے باپ کے بینک میں حصص بھی ہیں، میرے باپ نے میرے بچپن سے ہی میرے نام سے حصص خریدے ہوئے تھے، اب میں بڑی ہو گئی ہوں تو والد نے میرے حصص مجھے دے دئیے ہیں، ان حصص کا میں کیا کروں؟ کیا میرے لیے یہ حلال ہے کہ   میں ان حصص کو فروخت کر دوں  اور سودی لین دین سے پاک کمپنیوں میں سرمایہ کاری کر لوں، اس طرح سرمایہ کاری کی مد میں آنے والی رقم کو  خود بھی استعمال کر لوں یا انہیں صدقہ خیرات میں خرچ کر دوں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

سودی بینکوں کے حصص خریدنا جائز نہیں ہے، اگر کوئی اس کام میں ملوث ہے تو وہ اللہ تعالی سے توبہ کرے، اور صرف اپنا رأس المال  لے اور باقی مال کو مفاد عامہ یا مسلمانوں  کے مفاد میں خرچ کر کے انہیں ختم کر دے۔

اور چونکہ یہ حصص  حرام ہیں تو اس لیے اصولی طور پر آپ کیلیے انہیں فروخت کرنا ہی جائز نہیں ہے، بلکہ ان حصص سے خلاصی کا طریقہ یہ ہو گا کہ آپ یہ حصص بینک کو واپس کر دیں، اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو پھر آپ ان حصص کو فروخت کر سکتی ہیں، فروخت کرنے پر جو رقم ملےاس  میں سے رأس المال اپنے پاس رکھ لیں بقیہ کو پہلے بیان شدہ طریقے کے مطابق ختم کر دیں۔

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے ایک سوال پوچھا گیا کہ:
"میرے ایک کمپنی میں شیرز تھے، یہ کمپنی  25 سال قبل دیوالیہ ہو گیا، اس کمپنی کے بہت سے ٹرسٹی تھے جنہوں نے 25 سال قبل ریاض بینک میں باقی رقم سے شیرز خریدے تھے، ایک حصہ ایک ہزار ریال کا خریدا تھا، اب اس وقت ایک حصے کی قیمت 30 ہزار ریال ہے، میں اس رقم کا ضرورت مند ہوں، کیا میرے لئے شیرز کی موجودہ رقم لینا جائز ہے؟ واضح رہے کہ اس ساری مدت کے دوران ان لوگوں نے ریاض بینک میں شیئرز  میری لاعلمی میں خریدے تھے"

تو انہوں نے جواب دیا کہ:
" آپ ساری رقم وصول کر لیں، رأس المال بھی اور منافع بھی، پھر رأس المال الگ رکھ لیں، کیونکہ یہ آپ کی ملکیت ہے، اور منافع رفاہ عامہ کے کاموں میں صدقہ کر دیں؛ کیونکہ یہ سود ہے، اللہ تعالی اپنے فضل سے آپ کو مالدار بنا دے گا اور بہتر بدلہ دے گا، اور آپ کی ضرورت پوری کرے گا، اور جو اللہ تعالی سے ڈرتا ہے اللہ تعالی اس کے لئے آسانی کے راستے کھول دیتا ہے، اور اسے وہاں سے روزی دیتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا، اور جو اللہ تعالی سے ڈرتا ہے اللہ اس کے  لیے کافی ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالی آپ کو عمل کی توفیق دے۔
درود و سلام ہوں ہمارے نبی محمد  ، آپ کی آل اور صحابہ کرام پر۔  " ختم شد
عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز، عبد الرزاق عفیفی، عبد اللہ بن غدیان، عبد اللہ بن قعود۔

فتاوى اللجنة الدائمة  (13/506)

دائمی فتوی کمیٹی (13/508)سے یہ بھی پوچھا گیا کہ:
"کمپنیوں اور بینکوں کے حصص خریدنے کا کیا حکم ہے؟ کیا کمپنی یا بینک میں حصص لینے والوں کے لئے جائز ہے کہ مخصوص شیئرز حصہ داری کے بعد شیئرز کی خرید و فروخت کرنے والے لوگوں کو بیچے، اس میں اس بات کا امکان ہے کہ جتنے میں حصہ لیا ہے اس سے زیادہ قیمت پر بیچا جائے؟ اس منافع کی رقم کا کیا حکم ہے جسے ہر سال حصہ داری لینے والا اپنے شیئرز کی قیمت کے بدلے لیتا ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:

"جو کمپنی اور بینک سودی معاملہ کرتے ہوں ان کے شیئرز لینا جائز نہیں ہے، اور حصہ لینے والا جب سودی شیئرز سے خلاصی چاہے تو اسے مارکیٹ ریٹ کے مطابق  بیچے، اور اس میں سے صرف اپنا رأس المال نکال لے جبکہ باقی رقم خیراتی کاموں میں خرچ کر دے، اس کیلیے شیئرز کے فوائد اور سودی منافع میں سے کچھ بھی لینا جائز نہیں ہے، ہاں اگر ایسی کمپنی کے حصص لیے ہیں جو سودی لین دین نہیں کرتی تو اس سے منافع لینا جائز ہے۔ " ختم شد

آپ کے ہاتھ سے اگر یہ مال نکل رہا ہے تو اس پر افسوس مت کریں؛ کیونکہ یہ حرام مال ہے اس میں آپ کیلیے خیر ہے ہی نہیں، اللہ تعالی سے بہت زیادہ امید ہے کہ اللہ تعالی آپ کو اس سے بہتر عطا فرمائے گا، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے صحیح ثابت ہے کہ : (جو شخص کوئی چیز اللہ کیلیے چھوڑ دے تو اللہ تعالی اسے اس سے بھی بہتر بدلے میں عطا کر دیتا ہے)

اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو صرف وہی کام کرنے کی توفیق دے جنہیں وہ پسند کرتا ہے اور جن سے وہ راضی ہوتا ہے۔
واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب