الحمد للہ.
ہميں تو آپ كے اس قول " رمضان المبارك ميں ميرى روزانہ منى تسلسل كے ساتھ خارج ہوتى ہے " كى كوئى سمجھ نہيں آئى كہ آپ اس سے كيا مراد لے رہے ہيں.
1 - اگر تو اس سے مراد احتلام ہے كہ احتلام روزانہ ہو جاتا ہے اور منى خارج ہوتى ہے تو يہ روزہ پر اثرانداز نہيں ہوتى، كيونكہ يہ انسان كے ارادہ كے بغير خارج ہوئى ہے، اس كے خارج ہونے ميں انسان كا كوئى ارادہ نہيں.
2 - اور اگر اس كا مقصد يہ ہے كہ بيدارى كى حالت ميں آپ كے عمل و فعل كے بغير ہى منى خارج ہوتى ہے، اور آپ كو يقين ہے كہ يہ منى ہى ہے تو يہ غالبا بيمارى كى بنا پر ہوتا ہے، احناف مالكيہ اور حنابلہ كے جمہور علماء كرام كے ہاں اس سے غسل واجب نہيں ہوتا، يہى قول صحيح ہے.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 84409 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
اور اس منى كے خارج ہونے سے روزہ بھى خراب نہيں ہوگا كيونكہ يہ بغير ارادہ اور فعل كے خارج ہوئى ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر وہ مشت زنى كرے تواس نے حرام فعل كا ارتكاب كيا ليكن روزہ اسى صورت ميں فاسد ہوگا جب منى كا اخراج ہو جائے، اگر نزول ہوگيا تو روزہ فاسد ہو جائيگا، ليكن اگر بغير شہوت كے منى خارج ہو مثلا كسى شخص كو بيمارى كى بنا پر منى يا مذى آتى ہو تو اس پر كچھ لازم نہيں.
كيونكہ يہ تو بغير شہوت كے خارج ہوئى ہے، اس ليے يہ پيشاب كے مشابہ ہوئى، اور اس ليے بھى كہ اس كے اختيار كے بغير خارج ہوئى ہے، اور نہ ہى اس كے اخراج ميں وہ سبب بنا ہے اس ليے يہ احتلام كے مشابہ ہوگى " انتہى مختصرا
ديكھيں: المغنى ( 3 / 21 ).
حاصل يہ ہوا كہ:
اگر منى روزے دار كے فعل اور عمل كے بغير خارج ہو نہ تو اس نے اس ميں ہاتھ استعمال كيا ہو، اور نہ ہى مباشرت كى ہو اور نہ ہى بار بار ديكھا ہو تو اس كا روزہ فاسد نہيں ہوگا، اس حالت ميں خارج ہونے والى منى غالبا بيمارى اور علت كى بنا پر خارج ہوتى ہے.
3 ـ ليكن جو شخص مشت زنى كر كے يا پھر شہوت والى اشياء كو بار بار ديكھے كہ منى خارخ ہو جائے تو منى خارج ہونے كى بنا پر اس كا روزہ فاسد ہو جائيگا، اور اس كے ساتھ بہت گناہ بھى ہوگا؛ كيونكہ اس نے دو حرام كام كيے ہيں: ايك تو مشت زنى اور دوسرا جان بوجھ كر روزہ توڑا ہے، اور يہ عظيم اور بہت بڑا گناہ ہے.
ابن خزيمہ اور ابن حبان كى درج ذيل روايت ميں شيديد وعيد بيان كى گئى ہے:
ابو امامہ باہلى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا:
" ميں سويا ہوا تھا كہ ميرے پاس دو شخص آئے اور انہوں نے ميرے بازو سے پكڑا اور ايك بلند و بالا پہاڑ كے پاس لا كر كہنے لگے: اس پر چڑھيں، ميں نے كہا: ميں اوپر نہيں چڑھ سكتا تو وہ كہنے لگے: ہم آپ كے ليے اس ميں آسانى پيدا كريں گے، تو ميں اس پر چڑھ گيا جب ميں اوپر گيا تو بہت شديد قسم كى آوازيں آ رہى تھيں، ميں نے كہا:
يہ آوازيں كيسى ہيں ؟ تو وہ كہنے لگے: يہ جہنميوں كى چيخ و پكار ہے، پھر وہ مجھے لے كر چلے تو ہم كچھ لوگوں كے پاس پہنچے جنہيں گدى كے بل لٹكايا ہوا تھا، اور ان كى باچھيں پھٹى ہوئى تھيں اور ان سے خون بہہ رہا تھا، ميں نے دريافت كيا:
يہ كون لوگ ہيں ؟ تو وہ كہنے لگے: يہ وہ لوگ ہيں جو افطارى سے قبل ہى روزہ توڑ ديتے تھے "
صحيح ابن خزيمہ حديث نمبر ( 1986 ) صحيح ابن حبان حديث نمبر ( 7491 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح موارد الظمآن حديث نمبر ( 1509 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
4 ـ ہو سكتا ہے آپ پر يہ معاملہ مشتبہ ہو گيا ہو، اور آپ منى اور مذى اور ودى ميں فرق نہ كر سكتے ہوں، كيونكہ مذى اور ودى سے روزہ خراب نہيں ہوتا.
ذيل ميں آپ كے سامنے ہم فرق پيش كرتے ہيں:
مذى پتلا ليس دار مادہ ہوتا ہے جو بيوى سے بوس و كنار كرتے وقت يا جماع كا ارادہ كرتے يا ديكھنے كى صورت ميں يا جماع ياد كرنے كى صورت ميں خارج ہوتا ہے، اور انسان كو خارج ہونے كا احساس بھى نہيں ہوتا.
ودى سفيد رنگ كا گاڑھا مادہ ہوتا ہے جو غالبا پيشاب كے بعد قطروں كى صورت ميں خارج ہوتا ہے.
يہ دونوں ہى نجس اور پليد ہيں، اور ان كے خارج ہونے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے، ليكن مذى كى نجاست ودى سے خفيف اور كم درجہ كى ہے، اس كے ليے پانى كے چھٹے مارنا ہى كافى ہوتے ہيں، كہ جہاں لگے اسے نچوڑے يا كھرچے بغير ہى پانى كے چھينٹے مار ديے جائيں.
ان سے غسل واجب نہيں ہوتا، اور نہ ہى ان كےخارج ہونے سے روزہ فاسد ہوتا ہے.
ليكن منى سفيد رنگ كا پانى ہوتا ہے اور وہ اچھل كر شدت كے ساتھ خارج ہوتا ہے، اور اس كے بعد جسم ميں فتور سا پيدا ہوجاتا ہے يعنى سستى ہوجاتى ہے، گيلى منى كى بہت گندى بو ہوتى ہے جو گندھے ہوئے آٹے كى طرح يا پھر كھجور كے بور جيسى ہوتى ہے، اور خشك منى كى منى انڈى كى سفيدى جيسى ہوتى ہے، اور يہ طاہر ہے ليكن اس كے خارج ہونے سے غسل واجب ہو جاتا ہے.
ليكن اگر منى بيدارى كى حالت ميں بغير كسى شہوت خارج ہو جيسا كہ اوپر بيان ہوا ہے تو پھر غسل واجب نہيں ہو گا.
رہا يہ كہ عمرہ كے سفر ميں خارج ہوئى تھى، اس سلسلہ ميں گزارش يہ ہے كہ ا گر تو آپ كو نيند كى حالت ميں احتلام ہوا تو آپ پر غسل كرنا واجب تھا، اور آپ كے ليے غسل كيے بغير نہ تو مسجد حرام ميں داخل ہونا جائز تھا، اور نہ ہى بيت اللہ كا طواف كر سكتے تھے.
ليكن اگر يہ دن كے وقت بغير كسى شہوت كے تھى تو آپ پر وضوء كرنے كے علاوہ كچھ واجب نہ تھا.
اميد ہے كہ اس طرح ہم نے آپ كے سوال كا جواب دے ديا ہے، اور اگر كوئى اور اشكال ہے تو آپ وہ اشكال دوبارہ پيش كر سكتے ہيں، آپ كے مراسلہ سے ہميں بہت خوشى و سعادت حاصل ہوئى ہے.
واللہ اعلم .