الحمد للہ.
"جمعہ کی پہلی اور دوسری اذان کے درمیان وقفہ اتنا ہونا چاہیے کہ لوگ جمعہ کی نماز کے لیے تیار ہو کر چلے جائیں، اس دوسری اذان کا حکم سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے دوران اس وقت دیا تھا جب مدینہ کی آبادی کافی بڑھ گئی تھی، تو آپ رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں زوراء جگہ پر اذان دینے کا حکم دیا تا کہ لوگوں کو جمعہ کے وقت کا علم ہو جائے اور اپنی خرید و فروخت اور دیگر دنیاوی امور چھوڑ کر نماز جمعہ کے لیے روانہ ہو جائیں۔
جبکہ دوسری اذان نماز کا وقت شروع ہونے کا اعلان کرنے کے لیے ہوتی ہے، تو یہ امام کے مسجد میں داخل ہونے اور منبر پر بیٹھنے کے وقت ہو گی، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں ہوا کرتا تھا۔
ہم نے دونوں اذانوں کے مقصد کو جان لیا ہے کہ: پہلی اذان لوگوں کو نماز جمعہ کے لیے متوجہ کر کے انہیں روانہ کرنے کے لیے ہے، اور یہ اذان وقت سے پہلے ہوتی ہے کہ لوگ اذان سن کر تیاری کریں اور نماز جمعہ کے لیے وقت سے پہلے پہنچیں، جبکہ دوسری اذان کا مقصد نماز کا وقت شروع ہونے کی اطلاع دینا ہے جو کہ خطیب کے آنے اور منبر پر بیٹھنے سے شروع ہوتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں ہوتا تھا۔
دونوں اذانوں کے درمیان فاصلہ ہونا ضروری ہے تا کہ پہلی اذان کا کوئی فائدہ بھی ہو، لیکن اگر پہلی اذان دوسری اذان کے ساتھ ہی ہو اور دونوں اذانوں کے درمیان معمولی وقت ہو جیسے کہ بعض جگہوں پر ایسا ہی ہو رہا ہے تو اس سے پہلی اذان کا فائدہ ختم ہو جاتا ہے، اور عثمان رضی اللہ عنہ کا اضافی اذان کا حکم دیتے ہوئے یہ مقصد نہیں تھا کہ محض دو اذانیں ہوں، دونوں اذانوں کے قریب قریب ہونے سے کوئی فائدہ باقی نہیں رہے گا۔" ختم شد
"المنتقى من فتاوى الشيخ صالح الفوزان" ( 2 / 101 )