جمعرات 16 شوال 1445 - 25 اپریل 2024
اردو

کیا ریکارڈ شدہ درس سننے پر مسلمان کو اجر ملے گا؟

سوال

محترم میں آپ کی کیسٹس بہت زیادہ سنتا ہوں، اسی طرح محدث البانی رحمہ اللہ، امام الشیخ ابن باز اور ابن عثیمین رحمہما اللہ کی کیسٹس بھی سنتا ہوں، ان سے مجھے بہت فائدہ ہوتا ہے، تو شیخ محترم کیا مجھے ان کیسٹس کے سننے پر اجر ملے گا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

حصول علم افضل ترین اعمال میں شامل ہے، اپنی زندگی کے قیمتی اوقات کو صرف کرنے کے لیے حصول علم کا انتخاب بہترین آپشن ہے، اور جنت کی جانب جانے والا بہترین راستہ ہے۔

ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
"حصول علم نماز کی طرح بدنی عبادت ہے۔"
"جامع بیان العلم" (1/104)

سفیان ثوری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"فرائض کے بعد حصول علم سے افضل کوئی عمل نہیں ہے۔"
"حلية الأولياء" (6/361)

زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"دین کی سمجھ حاصل کرنا اللہ تعالی کی بہترین عبادت ہے۔"
"جامع بيان العلم" (1/119)

اسی طرح عبد اللہ بن وہب کہتے ہیں کہ میں مالک بن انس کے پاس تھا تو ظہر یا عصر کی نماز کا وقت ہو گیا ، اور میں انہیں پڑھ کر سنا رہا تھا اور ان کے سامنے موجود علمی کتب دیکھ رہا تھا، اچانک میں نے اپنی کتابوں کو جمع کیا اور نفل نماز کے لیے کھڑا ہو گیا، تو مجھے مالک بن انس رحمہ اللہ نے کہا: "یہ تو بڑی عجیب بات ہے، جس کام کو چھوڑ کر تم نفل پڑھنے لگے ہو اگر تمہاری نیت ٹھیک ہو تو یہ کام بھی اس سے کم نہیں ہے۔"
"جامع بيان العلم" (122)

یقیناً علمائے کرام کے درس ان کے سامنے بیٹھ کر یا ریکارڈ شدہ درس سننا حصول علم کا اہم ترین ذریعہ ہے، الحمدللہ عصر حاضر میں علمائے کرام کے لیکچرز سے استفادہ کرنے کے بہت سے ذرائع میسر ہیں، اس میں کیسٹس اور ریکارڈنگ کے دیگر ذرائع بھی ہیں، ریکارڈ شدہ دروس سننے کے متعدد فوائد ہیں:

1- طلبہ کی توجہ اور غور سے سننے پر تربیت ہوتی ہے، جو کہ بہت ہی اچھا عمل اور اخلاق ہے، کہ طالب علم کو دوسروں سے سننے کی چاہت ہو، اور اس میں خود آگے آ کر بات کرنے کی تمنا ختم ہو۔

جیسے کہ سفیان ثوری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حصول علم کا پہلا ادب: غور سے سننا، پھر یاد کرنا، اور پھر اس پر عمل کرنا اور پھر اسے آگے پھیلانا ہے" روضۃ العقلاء: (34)

2-اگر ایک بار سننے سے بات سمجھ میں نہ آئے تو عالم کی بات کو دوبارہ سے سننے کی سہولت ہوتی ہے، چنانچہ دوسری یا تیسری بار سننے سے بات واضح ہو جاتی ہے۔

3-علمی نکات اور دیگر فوائد لکھنے کا موقع ملتا ہے۔

4- دور دراز کے علاقوں میں رہنے والے طلبہ جن کے لیے علمائے کرام سے براہ راست علم حاصل کرنا ممکن نہ ہو تو وہ اپنے علاقوں میں رہ کر دور کے علمائے کرام سے علم حاصل کر سکتے ہیں، اس وقت علمائے کرام کے ریکارڈ شدہ دورس کی تعداد ہزاروں میں ہے جس کی وجہ سے تشنگان علم کے لیے وقت، محنت اور دولت کی بچت یقینی ہے۔

5- یہ دروس مختلف حالات میں سنے جا سکتے ہیں، سفر کے دوران گاڑی میں، یا کام کرتے ہوئے بھی درس سن سکتے ہیں، اس طرح وقت قیمتی بھی بن جاتا ہے اور فارغ وقت بھی گزر جاتا ہے۔

مذکورہ بالا فوائد کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ علمی مجالس اور علمائے کرام کے سامنے بیٹھ کر استفادہ نہ کیا جائے؛ کیونکہ حصول علم کے ہر اسلوب کے امتیازی فوائد ہوتے ہیں، سمجھ دار طالب علم علمائے کرام سے ملنے کے قیمتی لمحات کو غنیمت سمجھتا ہے، اور جانتا ہے کہ کس طرح باغ کے مختلف پھولوں سے خوشبو حاصل کرنی ہے۔

ہم اللہ تعالی سے امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالی فضل اور کرم فرماتے ہوئے ریکارڈ شدہ دروس سننے والوں کو بھی اجر عطا فرمائے گا، ان پر سکینت نازل کرے گا، انہیں بھی اپنی رحمت میں شامل فرمائے گا، جیسے کہ مشہور حدیث مبارکہ میں ہے کہ: (کوئی بھی قوم اللہ تعالی کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہو کر اللہ کی کتاب پڑھیں اور ایک دوسرے کو پڑھائیں تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے، انہیں رحمت ڈھانپ لیتی ہے، اور فرشتے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں، نیز اللہ تعالی ان کا تذکرہ اپنے پاس مخلوقات میں فرماتا ہے۔) مسلم: (2699)
واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب