جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

کورونا کی وبا کی وجہ سے گھروں میں نماز عید پڑھنے کا حکم

سوال

کورونا وائرس کی بیماری کی وجہ سے لاک ڈاؤن ہے، تو کیا گھر میں تین سے زیادہ مرد ہوں تو گھر میں نماز عید پڑھی جا سکتی ہے؟ اور کیا لاک ڈاؤن گھروں میں نماز پڑھنے کے لیے صحیح عذر ہے؟ اور اگر گھریلو قرنطینہ کی وجہ سے بندہ نماز عید اپنے گھر والوں کے ساتھ مل کر پڑھے تو کیا عید کا خطبہ بھی دے گا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جس شخص کی نماز عید فوت ہو جائے، یا کسی عذر کی بنا پر عید نماز کے لیے عید گاہ جانا ممکن نہ ہو تو اس کے لیے گھر میں اکیلے بھی نماز عید پڑھنا جائز ہے، اس کا طریقہ معروف عید نماز والا طریقہ ہی ہو گا کہ دو رکعت ادا کرے گا اور زائد تکبیرات بھی کہے گا، یہ جمہور اہل علم کا موقف ہے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ "المغنی" از ابن قدامہ (2/ 289)ملاحظہ کریں۔

عید نماز کی اصلی حالت میں ادائیگی اس صورت میں مزید مؤکد ہو جائے گی جب عید نماز بطور قضا نہ پڑھی جا رہی ہو، بلکہ وہ اصل نماز ہی ہو کہ جس سے فرض ادا ہو جائے یا فرض کفایہ ادا ہو جائے، آج کل بہت سے ممالک میں عید نماز کے متعلق صورت حال کچھ اسی طرح ہی ہے۔

دوم:
شافعی فقہائے کرام کا موقف یہ ہے کہ گھروں میں نماز عید ادا کی جا سکتی ہے، تو شافعی فقہائے کرام کے ہاں گھروں میں عید نماز کی ادائیگی نمازِ عید فوت ہونے کے ساتھ مشروط نہیں ہے۔

جیسے کہ مزنی ؒ امام شافعی رحمہ اللہ سے "مختصر الأم" (8/125) میں بیان کرتے ہیں کہ:
"نماز عیدین گھر میں اکیلا آدمی ، مسافر، غلام اور عورت سب ہی ادا کر سکتے ہیں۔" ختم شد
مزید کے لیے دیکھیں: المجموع (5/ 26)

نیز شافعی فقہائے کرام کے ہاں مذکورہ لوگوں کے لیے جماعت کی صورت میں عید نماز ادا کرنے پر خطبہ دینا مسنون ہے۔

جیسے کہ مغنی المحتاج (1/ 589) میں ہے کہ:
"دو رکعت ادا کرنے کے بعد با جماعت افراد کے لیے دو خطبے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور خلفائے راشدین کی اقتدا میں دینا مسنون ہے، نیز مسافر اور غیر مسافر سب ہی یکساں پر طور با جماعت عید ادا کر سکتے ہیں۔" ختم شد

جب کہ مالکی فقہائے کرام کا مذہب یہ ہے کہ جن پر نماز عید ضروری نہیں ہے، یا جسے با جماعت نماز عید نہ ملے تو اس کے لیے نماز عید پڑھنا مستحب ہے، چاہے اکیلا ہی ادا کرے۔

جیسے کہ خرشی ؒ "شرح مختصر خلیل" (2/ 104) میں کہتے ہیں کہ:
"[متن مختصر خلیل] جسے پڑھنے کا حکم نہیں ہے ، یا جس کی نماز فوت ہو گئی ہے وہ پڑھ سکتا ہے۔
[شرح] یعنی جس شخص کو جمعہ پڑھنے کا حکم وجوبی طور پر نہیں ہے، یا وہ امام کے ساتھ نماز عید نہیں پڑھ سکا تو اس کے لیے نماز عید پڑھنا مستحب ہے۔
تو اب کیا وہ با جماعت پڑھیں گے یا اکیلے اکیلے؟ اس کے متعلق دو موقف ہیں۔" ختم شد

جبکہ ان میں سے بعض فقہائے کرام نے اکیلے نماز عید پڑھنے کو راجح قرار دیا ہے، مزید تفصیلات کے لیے حاشیہ دسوقی (1/ 401)کا مطالعہ کریں۔

اسی طرح مالکی فقہائے کرام کہتے ہیں کہ اگر وہ عید نماز با جماعت ادا کریں تو خطبہ نہیں دیں گے۔

جیسے کہ مالکی فقیہ حطابؒ "مواهب الجليل" (2/ 198) میں لکھتے ہیں :
"شہری لوگوں کی نماز فوت ہونے پر با جماعت قضا دینے کے جواز کے موقف کی صورت میں سب کی متفقہ رائے یہ ہے کہ وہ خطبہ نہیں دیں گے، اسی طرح وہ بھی خطبہ نہیں دیں گے جو کسی عذر کی بنا پر نماز نہیں پڑھ سکے۔۔۔"

نیز عید نماز کی گھروں میں ادائیگی کے جواز پر دلیل یہ بھی ہے کہ صحیح بخاری میں معلقا اور صیغہ جزم کے ساتھ مروی ہے کہ: سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام ابن ابی عتبہ کو زاویہ مقام پر حکم دیا، تو انہوں نے اپنے اہل خانہ اور بچوں کو اکٹھے کر کے با جماعت عید نماز پڑھائی۔

اس کے متعلق ابن رجب ؒ فتح الباری: (9/ 76) میں کہتے ہیں کہ:
"سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے یہ فتوی شہر میں نہیں دیا، بلکہ آپ اس وقت شہر سے دور زاویہ مقام میں مقیم تھے، چنانچہ یہاں انس رضی اللہ عنہ کا حکم دیہاتوں میں رہنے والوں کا ہے۔ امام احمد نے اس روایت کو ان سے بیان کرتے ہوئے اس چیز کی طرف اشارہ بھی کیا ہے۔" ختم شد

دوم:
الشیخ عبد الرحمن البراک نے یہ فتوی جاری کیا ہے کہ جس وقت کسی بھی ملک میں وبائی امراض اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے نماز عید پڑھنا ممکن نہ ہو تو ایسی صورت میں نماز عید کا حکم اس شخص کی نماز جیسا ہو گا جس کی نماز عید فوت ہو گئی ہو، اس لیے نماز عید معروف طریقے کے مطابق گھروں میں ادا کی جائے گی۔

ان کا کہنا ہے کہ:
"نماز عید اگر کسی رکاوٹ کی وجہ سے نہ قائم کی جا سکے جیسے کہ اس وقت صورت حال ہے، تو اس کا حکم اس شخص کی نماز عید جیسا ہے جس کی نماز فوت ہو چکی ہے۔۔۔
تاہم یہ کہنا کہ نماز عید کی قضا ہوتی ہی نہیں ہے، تو یہ بات یہاں مناسب نہیں؛ کیونکہ آج کل کی صورت حال میں نماز عید پڑھی ہی نہیں گئی، لہذا ابھی تک نماز عید کا فریضہ ادا نہیں ہوا، البتہ نماز عید کو یہاں پر ایسے شخص کی کیفیت پر قیاس کیا جا سکتا ہے جس کی نماز عید فوت ہو چکی ہے، جیسے کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔ واللہ اعلم" مختصراً اقتباس مکمل ہوا
ماخوذا ز: https://sh-albarrak.com/article/18234

خلاصہ:
1- اکیلے نماز عید پڑھنے کی صورت میں خطبے کے بغیر نماز ادا کرے گا۔

2-با جماعت نماز عید پڑھنے والوں کے لیے شافعی موقف کے مطابق نماز کے بعد دو خطبے دینا مسنون ہے؛ خصوصاً ایسی صورت میں کہ مسلمانوں کی عید گاہوں میں نماز عید کا فریضہ ادا نہ کیا گیا ہو۔

جبکہ مالکی اور حنبلی فقہائے کرام سمیت ایسے اہل علم جو آج کل کی صورت حال میں لوگوں کے عذر کو عید نماز فوت ہو جانے جیسا سمجھتے ہیں؛ ان کے مطابق : نماز عید با جماعت لیکن خطبے کے بغیر ادا کریں گے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب